1 جَیسا یسعیاہ نبی کی 2 یسعیاہ نبی نے اس طرح لکھا ہے : 3 “خداوند کے لئے راہ کو ہموار کرو 4 اسی طرح یوحنا بپتسمہ (اصطبا غ ) دینے والے نے جنگل میں آکر لوگوں کو بپتسمہ دیا تم اپنے گناہوں پر توبہ کرتے ہوئے خدا کی طرف رجوع ہوکر بپتسمہ لو۔ تب ہی تمہارے گناہ معاف ہونگے۔ 5 اہلیان یہوداہ اور یروشلم یوحنا کے پاس آ ئے اور اپنے گنا ہوں کا اعتراف کیا ۔ اس وقت یوحنا نے انکو دریائے یردن میں بپتسمہ دیا۔ 6 یوحنا اونٹ کے بالوں کا بُنا ہوا اوڑھنا اوڑ ھ کر کمر میں چمڑے کا کمر بند باندھ لیتا تھا ۔ وہ ٹڈیا ں اور جنگلی شہد کھا تا تھا۔ 7 یوحناّ لوگوں کو وعظ دیتا “میرے بعد آنے والا مجھ سے زیادہ طاقت ور ہوگا میں جھک کر اس کی جوتیوں کی تسمہ کھولنے کے بھی لائق نہیں “۔ 8 میں تمکو پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں لیکن وہ تم کو مقدس روح سے بپتسمہ دیگا 9 ان دنوں یسوع گلیل کے ناصرت سے یوحنا کے پاس آیا یوحنا نے یسوع کو دریائے یردن میں بپتسمہ دیا ۔ 10 جب یسوع پانی سے اوپر آ رہے تھے اس نے دیکھا آسمان کھلا اور روح القدس ایک کبوتر کی مانند اسکی طرف آرہا تھا ۔ 11 تب آسمان سے ایک آواز آئی “توہی میرا چہیتا بیٹا ہے ۔میں تجھ سے خوش ہوں ۔ 12 اس وقت روح نے یسوع کو صحرا میں بھیج دیا ۔ 13 یسوع وہا ں چالیس دن کی مدت تک درندوں کے ساتھ بسر کر کے شیطان سے آزمایا گیا ۔ تب فرشتے آئے اور یسوع کی مدد کی ۔ 14 یو حنا کو جب قید کیا گیا یسوع نے گلیل جا کر لوگوں کو خدا کی خوش خبری دی۔ 15 “وقت پورا ہو گیا ہے۔خدا کی باد شا ہت قریب آ گئی ہے اپنے گنا ہوں پر توبہ کر کے خداوند کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور خوش خبری پر ایمان لاؤ”۔ 16 یسوع نے گلیل کی جھیل کے نز دیک سے گذ رتے وقت شمعون اوراسکے بھا ئی اندریاس کو دیکھا۔یہ دونوں ماہی گیر تھے یہ مچھلی کا شکار کر نے جھیل میں جال پھینک رہے تھے۔ 17 یسوع نے کہا “آ ؤ میرے پیچھے چلو میں تمکو دُوسرے ہی قسم کا ماہی گیر بناؤں گا ۔اس کے بعد تم لوگوں کو پکڑو گے نہ کہ مچھلیوں کو”۔ 18 اس وقت وہ اپنے جالوں کواسی جگہ چھوڑ کراس کے پیچھے ہو لئے۔ 19 یسوع گلیل جھیل کے کنارے گھوم پھر ہی رہے تھے کہ انھوں نے زبدی کے بیٹوں یعقوب اور یوحنا نامی دونوں بھائیوں کو دیکھا جو اپنی کشتی میں مچھلیوں کا شکار کر نے کے لئے جالوں کو درست کر رہے تھے۔ 20 انکے باپ زبدی اور مز دور بھی بھائیوں کے ساتھ کشتی میں تھے۔یسوع نے اُن کو فوراً بلایا وہ اپنے باپ کو چھوڑ کر فوراً ہی یسوع کے پیچھے ہولئے۔ 21 سبت کے دن یسوع اور اس کے شاگرد کفر نحوم گئے۔ سبت کے دن یہو دی عبادت گاہ میں جاکر وہ لوگوں کو وعظ کر نے لگے۔ 22 یسوع کی تعلیمات سن کر لوگ حیران ہوئے ۔وہ ان کو شریعت کے استاد کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک حاکم کی طرح تعلیم دینے لگا۔ 23 یسوع جب یہودی عبادت گاہ میں تھے تو بدروح کے اثرات سے متاثر ایک آدمی وہاں موجود تھا۔ 24 وہ چلایا اے یسوع ناصری ! تو ہم سے کیا چاہتا ہے؟کیا تو ہمیں تباہ کر نے کے لئے آیا ہے؟مجھے معلوم ہے تو خدا کی جانب سے آیا ہوا مقدس ہے”۔ 25 یسوع نے ڈانٹا “چپ رہ اس میں سے نکل کر باہر آجا” 26 بدروح اس سے پنجہ آز مائی کر تے ہوئے اور پورے زورو شور سے چلا تے ہوئے اس میں سے نکل کر باہر آئی۔ 27 حاضرین حیران و ششدر ہوگئے۔وہ آ پس میں سوال کر نے لگے “یہ کیا معاملہ ہے؟ یہ ایک نئی تعلیم ہے۔یہ صاحب مقتدر ہو کر تلقین کرتا ہے!حتیٰ کے بدروحوں تک پر حکم چلاتا ہے اور وہ روحیں فرمانبردارہو جاتی ہیں 28 یسوع کی یہ ساری خبر گلیل کے علا قے میں ہر سمت پھیل گئی۔ 29 یسوع اور انکے شاگرد یہو دی عبادت گاہ سے نکل کر یعقوب اور یوحنا کے ساتھ شمعون اور اندریاس کے گھر گئے۔ 30 شمعون کی ساس بخار میں مبتلا تھی۔وہاں کے لوگوں نے اس کے بارے میں یسوع سے عرض کی ۔ 31 اس طرح یسوع نے مریضہ کے بستر کے قریب جاکراس کا ہاتھ پکڑ لیااور اسکو بستر سے اوپر اٹھنے میں اس کی مدد کی فو راً وہ شفایاب ہو گئی۔اور وہ اٹھ کر اسکی تعظیم کر نے لگی۔ 32 اس شام غروب آفتاب کے بعدلوگوں نے مریضوں کو اور ان لوگوں کو جو بد روحوں سے متاثر تھے انکے پاس لائے۔ 33 گاؤں کے تمام لوگ اسکے گھر کے دروازہ کے سامنے جمع ہوئے۔ 34 سوع نے مختلف بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو شفاء بخشی، بدروحوں سے متاثر کئی لوگوں کو اس سے چھٹکارا دلایا۔لیکن ان بدروحوں کو یسوع نے بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔کیوں کہ بدروحوں کو معلوم تھا کہ یسوع کون ہے۔ 35 دُوسرے دن صبح صادق ہی اٹھ کر یسوع باہر چلے گئے۔وہ تنہا مقام پر گئے اور عبادت کر نے لگے۔ 36 اس کے بعد شمعون اور اس کے ساتھی یسوع کی تلاش میں نکلے۔ 37 وہ یسوع کو پایااور کہنے لگے کہ” لوگ تمہاری ہی راہ دیکھ رہے ہیں “۔ 38 یسوع نے کہا”یہاں سے قریبی قریوں کو ہمیں جا نا چاہئے ان مقامات پر مجھے تبلیغ کر نی ہے اس کی خاطر میں یہاں آیا ہوں”۔ 39 اس طرح یسوع گلیل کے چاروں طرف دورہ کر کے ان کی یہودی عبادت گاہوں میں لوگوں کو تبلیغ کی اور بدروحوں سے متاثرلوگوں کونجات دلائی۔ 40 ایک کوڑھی یسوع کے پاس حاضر ہوااور گھٹنے ٹیک کر عرض کر نے لگا” اگر آپ چاہیں تو مجھے صحت بخش سکتے ہیں”۔ 41 یسوع نے اس پر رحم کے تقاضے سے چھو کرکہا”تیری صحت یا بی میری آرزوہے۔تجھے صحت نصیب ہو”۔ 42 اس کے ساتھ ہی فوراً اسے تندرستی نصیب ہوئی۔ کوڑھ چھوٹ گیااور وہ کوڑھی چلا گیا۔ 43 ۔ 44 یسوع نے اس کو روانہ کیا اور سختی سے تا کید کی کہ “اس چیز کے متعلق کسی سے نہ کہنا مگر جاکر اپنے تئیں کا ہن کو دکھا اور اپنے پاک صاف ہو جا نے کی بابت اُن چیزوں کا جو مُوسیٰ نے مُقرّر کی نذ رانہ پیش کر تاکہ ان کے لئے گواہی ہو ۔” 45 وہ وہاں سے جاکر لوگوں سے کہا کہ یسوع ہی نے اس کو شفا دی ۔ اس طرح یسوع کے بارے میں خبر ہر طرف پھیل گئی ۔ اور اسی لئے جوجب لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں , اس وقت یسوع شہر میں داخل نہ ہو سکا ۔یسوع ایسی جگہ قیام کرتا جہاں لوگ نہ بسر کرتے ہو ۔ لیکن لوگ تمام شہروں سے آتے اور وہاں پہنچتے جہاں یسوع ہوتے ۔ 1 چند دن گزر نے کے بعد یسوع کفر نحوم کو واپس آئے ۔ یہ خبر پھیل گئی کہ یسوع گھر واپس آگئے ہیں ۔ 2 لوگ کثیر تعداد میں یسوع کی تبلیع سننے کے لئے جمع ہوئے ۔ لوگوں سے گھر بھر گیا تھا ۔ وہاں کسی ایک کے ٹھہر نے کے لئے دروازے کے باہر بھی جگہ نہ تھی ۔ یسوع انہیں تعلیم دے رہے تھے ۔ 3 چند لوگوں نے ایک مفلوج آدمی کو اس کے پاس لایا اسے چار آدمی اٹھائے ہوئے تھے ۔ 4 گھر چونکہ لوگوں کی بھیڑ سے بھرا ہوا تھا اسلئے وہ اس کو یسوع تک نہ لا سکے ۔ اس وجہ سے وہ لوگ یسوع جس گھر میں تھے اس کے چھت پر چڑ ھ گئے اور چھت کا وہ حصّہ ادھیڑ دیا جس کے نیچے یسوع بیٹھا ہوا تھا ۔ اس طرح وہاں سے جگہ بنا کر مریض کو بستر سمیت جس پر وہ لیٹا ہوا تھا اتار دیا ۔ 5 ان لوگوں کے اس گہرے ایمان کو دیکھ کر یسوع نے مفلوج آدمی سے کہا ,” اے نوجوان! تیر ے گناہ معاف ہوگئے ہیں ۔ “ 6 چند شریعت کے معلّمین وہاں بیٹھے ہوئے تھے جنہوں نے یسوع کی کہی ہوئی باتوں کو سنا اور سوچا “۔ 7 “یہ ایسا کیوں کہتے ہیں ؟یہ کلمات خدا کی بے عزّتی کرنے والے ہیں ! کیوں کہ صرف خدا ہی گناہوں کو معاف کر سکتا ہے۔ “ 8 یسوع نے سمجھا کہ شریعت کے معلّمین اس کے متعلق سوچ رہے ہیں تو کہا “تم ایسا کیوں سوچتے ہو ؟ 9 اس مفلوج آدمی کو کیا کہنا آسان ترین ہے ؟”تیرے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں یا اس طرح کہنا چاہئے کہ اٹھ اور اپنا بستر اٹھا لے جا ۔ 10 لیکن ابن آدم کو زمین پر گناہوں کو معاف کر نے کا حق ہے ۔ یہ تمہیں سمجھنا ہوگا “تب یسوع نے مریض سے اس طرح کہا ۔” 11 “میں تجھ سے کہہ رہا ہوں اٹھ اوراپنا بستر لے اور گھر جا “۔ 12 فوراً وہ مریض اٹھ کھڑا ہوا اور اپنا بستر لیتے ہوئے سب کے سامنے وہاں سے باہر چلا گیا ۔ اس منطر کو دیکھ کر لوگوں نے حیران ہوکر کہا ، “ہم نے ایسا کوئی واقعہ پہلے کبھی نہ دیکھا “۔اور وہ خدا کی تعریف کرنے لگے ۔ 13 یسوع دوبارہ جھیل کے پاس گئے کئی لوگ انکے پیچھے گئے انہوں نے ان کو تعلیم دی۔ 14 جب یسوع جھیل کے کنارے سے گزر رہے تھے ایک محصول وصول کر نے والے نے حلفی کے بیٹے لاوی کو دیکھا ۔ لاوی محصول وصولی کے چبوترے پر بیٹھا تھا ۔ یسوع نے کہا ، “میرے پیچھے آؤ “تب وہ اٹھ کر یسوع کے پیچھے ہو لیا۔ 15 اسی دن کچھ ہی دیر بعد یسوع لاوی کے گھر میں کھانا کھا رہے تھے ۔ وہاں کئی ایک محصول وصول کرنے والے اور دیگر بد کردار لوگ بھی یسوع اور ان کے شاگر دوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے ۔ ان لوگوں میں متعدد یسوع کے تابعین تھے ۔ 16 شریعت کے معلمّین جو فریسی تھے دیکھے کہ محصول وصول کر نے والے عہدید اروں اور دیگر بد کردار لو گوں کے ساتھ یسوع کھا رہے تھے تو انہوں نے یسوع کے شاگردوں سے پوچھا ، “وہ کیوں گنہگاروں اور محصول وصول کرنے والے عہدیدا روں کے ساتھ کھا نا کھاتاہے ؟“ 17 یسوع نے یہ سناُ اور ان سے کہا،”صحت مندوں کے لئے طبیب کی ضرورت نہیں ۔ بیماروں کے لئے طبیب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ میں شریف لوگوں کو بلا نے کے لئے نہیں آیاہوں میں گنہگاروں کو بلا نے کے لئے آیا ہوں 18 یوحنا کے شاگرد اور فریسی لوگ روزہ رکھتے تھے ۔چند لوگ یسوع کے پاس آئے اور پوچھا ،”یوحنا کے شاگرد اور فریسی بھی روزہ رکھتے ہیں ۔لیکن تیرے شاگرد روزہ کیوں نہیں رکھتے ؟” 19 یسوع نے جواب دیا ، “جب شادی ہو رہی ہے ،اور جب دُلہا ساتھ رہتا ہے تو اس کے دوست غم نہیں کرتے اور نہ روزہ رکھتے ہیں ۔ 20 لیکن ایک وقت آئے گا جب وہ اپنے دوستوں کو چھوڑ کر چلا جا ئے گا ،تب اسکے دوست فکر مند ہوں گے اور روزہ رکھیں گے۔ 21 “کوئی بھی اپنی پرانی اور پھٹی ہوئی پوشاک پر نئے کپڑے کا پیوند نہیں لگا تا ۔ اگر وہ ایسا پیوند لگا تا بھی ہے تو وہ پیوند سکڑ کر پھٹی ہوئی جگہ کو مزید بڑا بنا تا ہے ۔ 22 اسی طرح لوگ نئی مئے کو پرُا نے مشکوں میں ڈال کر نہیں رکھتے کیوں کہ ایسا کرنے سے مشک بھی ٹوٹ جاتی ہے اور مئے بھی ضائع ہو جا تی ہے ۔ اس لئے لوگ ہمیشہ نئی مئے کو نئی مشکوں میں ڈال کر رکھتے ہیں ۔” 23 سبت کے دن یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ چند کھیتوں سے گذر رہے تھے۔جب وہ چل رہے تھے تو شاگردوں نے کھا نے کے لئے دانے کی چند بالیاں توڑ لیں۔ 24 فریسیوں نے یہ دیکھا اور یسوع سے پوچھا ،” تیرے شاگرد ایسا کیوں کرتے ہیں؟ سبت کے دن ایسا کرنا کیا یہودیوں کی شریعت کے خلاف نہیں ہے”۔ 25 یسوع نے ان کو جواب دیا “کیا تم نے نہیں پڑھاہے کہ داؤد اور اسکے لوگ جب بھوکے تھے اور جب انہوں نے کھا نا مانگا تو اس نے ان کے لئے کیا کیا تھا ۔ 26 وہ اعلیٰ کاہن ابی یاتر کا دور تھا ۔ داؤد ہیکل میں گیا اور اسنے خداوند کے لئے پیش کی کوئی روٹی کھئی ۔ موسٰی کی شریعت کہتی ہے صرف کاہن ہی روٹی کھا سکتا ہے داؤد نے اپنے ساتھ موجود لوگوں کو بھی روٹی دی“۔ 27 اس کے بعد یسوع نے فریسیوں سے کہا ، “سبت کا دن اس لئے مقرّر ہوا کہ اس میں لوگوں کی مدد ہو نہ کہ لوگوں کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ سبت کے دن اس کے حوا لے ہو جائیں”۔ 28 اسی لئے ابن آدم سبت کے دن کے لئے اور تمام دنوں کے لئے خداوند ہے“۔ 1 دوسرے دن یسوع یہودی کے عبادت خانہ میں گئے ۔ وہاں ایک ہاتھ کا سوکھا ہوا آدمی تھا ۔ 2 وہاں پر موجود چند یہودی یسوع سے ہونے والی کسی غلطی کے منتظر تھے تا کہ وہ انکو مورد الزام ٹھہرائیں ۔ وہ لوگ کڑی نظر رکھے ہوئے تھے کہ یسوع کیسے اس سکڑے ہاتھ والے آدمی کو اچھا کرینگے ۔ یہ سبت کا دن تھا اس لئے وہ اس کے قریب ہی ٹھہرے ۔ 3 یسوع نے ہاتھ کے سوکھے ہوئے آدمی سے کہا ، “کھڑا ہوجا سبھی لوگوں کو اپنے کو دیکھنے دے ۔” 4 تب یسوع نے لوگوں سے پوچھا ،” سبت کے دن کونسا کام کرنے کی اجازت ہے نیک کام یا برا کام ؟کیا یہ صحیح ہے کہ ایک کی زندگی کو بچائی جائے یا نیست و نابود کردی جائے ؟” لیکن وہ خاموش رہے کیوں کہ وہ جواب دینے سے قاصرتھے۔ 5 یسوع غصّہ سے لوگوں کی طرف دیکھا ۔ انکی ضد نے اسے رنجیدہ کیا ۔ یسوع نے اس آدمی سے کہا “تو اپنا ہاتھ آگے بڑھا “اس نے اپنا ہاتھ یسوع کی طرف بڑھایا ۔ فوراً ً ہی اسکا ہاتھ شفا یاب ہو گیا ۔ 6 اس وقت فریسی یہودیوں کے ساتھ باہر گئے اور منصوبہ باندھنا شروع کیا کہ کس طرح یسوع کو قتل کیا جائے ۔ 7 یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ جھیل کی طرف گئے ۔ گلیل کے کئی لوگ اس کے ساتھ ہو لئے ۔ 8 یہوداہ ،یروشلم اور ادونیہ سے دریائے یردن کے اس پار کے علاقے سے صور اور صیدا کے اطراف و اکناف والی جگہوں سے کثیر تعداد میں لوگ آئے ۔ یسوع کی کار گزاریوں کو سن کر وہ لوگ آئے تھے۔ 9 یسوع نے لوگوں کی اس بھیڑ کو دیکھ کر اپنے شاگردوں سے کہا اس کے لئے ایک کشتی تیار کرے تا کہ وہ لوگ کچل نہ دیں ۔ 10 یسوع نے کئی لوگوں کو شفایاب کیا ۔ اس لئے تمام مریض اس کو چھو نے کے لئے اس پر گر پڑے تھے ۔ ناپاک روحوں سے متاثر کئی لوگ وہاں تھے ۔ 11 بد روحیں یسوع کو دیکھ کر اس کے سامنے نیچے گرتے اور زور سے چیختے تھے کہ” تو خدا کا بیٹا ہے”۔ 12 اس لئے یسوع نے ان کو اس بات کی سختی سے تاکید کی تھی کہ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ وہ کون ہے ۔ 13 تب یسوع ایک پہاڑ پر چڑھ گئے یسوع نے چند لوگوں کو اپنے پاس آنے کے لئے کہا یسوع کی چاہت اور پسند کے لوگ یہی تھے ۔ یہ لوگ یسوع کے پاس اُوپر گئے ۔ 14 اس نے ان میں سے بارہ آدمیوں کو اسکے رسولوں کی حیثیت سے چن لیا ۔ یسوع نے چاہا کہ یہ بارہ آدمی اس کے ساتھ رہیں اور ان کو دوسرے مقامات پر لوگوں کی تعلیم کے لئے بھیجا جائے ۔ 15 اس کے علاوہ ان کو بد روحوں سے متاثر لوگوں کو بد روحوں سے چھٹکارہ دلانے کی لئے اختیارات دینا چاہا ۔ 16 ان بارہ آدمیوں کو یسوع نے چن لیا وہ یہ ہیں : 17 زبدی کے بیٹے یعقوب اور یوحناّ ،یسوع نے انکو بُوانرگس کا نام دیا ۔ اس کا مطلب “گرج کے بیٹے ۔ 18 اندریاس 19 اور یہوداہ اسکریوتی وہی ہے جس نے یسوع کو اس کے دشمنوں کے حوالے کیا ۔ 20 تب یسوع گھر کو گئے ۔لیکن وہاں دوبارہ کئی لوگ جمع ہو گئے ۔ اس وجہ سے یسوع اور اس کے شاگرد کھانا بھی نہ کھا سکے ۔ 21 یسوع کے خاندان کے لوگوں کو ان تمام حالات کا علم ہوگا ۔ چونکہ کچھ لوگوں نے کہا کہ یسوع پاگل ہے ۔ ان کے حاندان کے لوگ ان کو لے جانے کے لئے آ ئے۔ 22 شریعت کے معلّمین جو یروشلم سے آئے تھے انہوں نے کہا” بلجبلِ ِ(شیطان) اس میں ہے ۔ وہ بد روحوں کے سردار کی مدد سے بد روحوں سے متاثر لوگوں کو چھٹکارہ دلاتا ہے ۔” 23 اس لئے یسوع نے لوگوں کو بلایا کہ وہ مل کر آئیں اور انہیں تمثیلوں کے ذریعہ تعلیم دی” یسوع نے کہا کہ شیطان کو شیطان کس طرح نکال سکتا ہے ۔ 24 بادشاہت جو خود اپنے خلاف لڑتی ہے ۔ خود قائم نہیں رہ سکتی ۔ 25 جو خاندان بٹ گیاہو وہ باقی نہیں رہ سکتا ۔ 26 اگر شیطان خود اپنے ہی خلاف پلٹ جائے اور بٹ جائے وہ کھڑا نہیں رہ سکتا اس کی حکومت کا خاتمہ ہو جا تا ہے۔ 27 اگر کوئی آدمی کسی طاقتور آدمی کے گھر میں گھس کر چیزوں کو چرانا چاہتا ہو تو اسکو چاہئے کہ وہ پہلے طاقتور کو باندھے ۔ تب کہیں اس کو طاقتور کے گھر سے اشیاء کا چرُانا ممکن ہو سکے گا۔ 28 میں تم سے سچائی بتاتا ہوں لوگوں سے ہو نے والے تمام گناہوں کو اور کفریہ کلمات کی معافی مل سکتی ہے ۔ 29 لیکن رُوح القدس کے خلاف جو کوئی گناہ کرے گا اسے کبھی معافی نہ ملے گی کیونکہ وہ ہمیشہ اس گناہ کا مجرم رہے گا۔“ 30 یسوع نے یہ اس لئے کہا کہ معلّمیں شریعت کہتے ہیں کہ یسوع کے اندر ناپاک روح ہے ۔ 31 تب یسوع کی ماں اور اسکے بھائی وہاں آئے وہ باہر کھڑے ہو گئے اور ایک آدمی کو اندر بھیجا کہ یسوع مسیح کو باہر آنے کے لئے کہے ۔ 32 کئی لوگ یسوع کے اطراف بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے یسوع سے کہا “آپکی ماں اور آپکے بھائی باہر آپکا انتطار کر رہے ہیں۔” 33 یسوع نے جواب دیا ، “میری ماں کون ؟ میرے بھائی کون ؟” 34 تب اس نے اپنے اطراف بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا ، “یہی لوگ میری ماں اور میرے بھا ئی ہیں ۔ 35 جو کوئی خدا کی مرضی کے مطابق چلے گا وہی میرا بھا ئی بہن اور میری ماں ہوگی ۔” 1 ایک دُوسرے موقع پر یسوع جھیل کے کنا رے لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے ۔ایک بڑی بھیڑ اس کے اطراف جمع ہو گئی ۔ یسوع ایک کشتی میں جا بیٹھے اور جھیل کے کنارے تھوڑی دور فاصلہ پر چلے گئے تمام لوگ پانی کے کنارے تھے ۔ 2 یسوع نے کشتی میں بیٹھ کر لوگوں کو مختلف تمثیلوں کے ذریعے تعلیم دی ۔ انہوں نے کہا ، 3 “سنو ایک کسان تخم ریزی کرنے کے لئے کھیت کو گیا ۔ 4 بوقت تخم ریزی چند دانے راستے کے کنارے گرے چند پرندے آئے اور وہ دانے چگ گئے ۔ 5 چند دانے پتھریلی زمین پر گرے اس زمین پر زیادہ مٹی نہ تھی ۔ زمین گہری نہ ہونے کی وجہ سے بہت جلد ہی اگ گئے ۔ 6 لیکن جب سورج اوپر چڑھا گہری جڑیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ پودے سوکھ گئے۔ 7 چند اور دانے خار دار جھاڑیوں میں گرے ,خار دار جھاڑیاں پھلنے پھولنے کے بعد اچھے پودوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا ۔ جس کی وجہ سے وہ پودے کوئی پھل نہ دیئے ۔ 8 چند دُوسرے دانے زرخیز زمین پر گرے ۔ وہ دانے اُگے اور آگے بڑھ کر پھل دار ہوئے ۔ ان میں چند درخت تیس گنا اور چند ساٹھ گنا اور دوسرے چند درخت سو گنا زیادہ پھل دیئے ۔” 9 تب یسوع نے کہا ،”تم لوگ جو میری باتوں کو سن رہے ہو غور سے سنو !” 10 جب یسوع اکیلے تھے تو اس کے بارہ رسولوں اور اس کے دیگر شاگردوں نے ان تمثیلوں کی بابت ان سے پوچھا، 11 یسوع نے کہا ،”خدا کی بادشاہت کی سچائی کاراز صرف تم سمجھ سکتے ہو لیکن دوسرے لوگوں کو میں تمثیلوں ہی کے ذریعے ہر چیز سمجھا تا ہوں ۔ 12 تا کہ: 13 تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ،” کیا تم نے اس تمثیل کو سمجھا اگر تم اس تمثیل کو نہ سمجھے تو پھر دوسری کونسی تمثیل کو سمجھو گے ؟۔ 14 کسان جو بوتا ہے اس کی نسبت ویسا ہی ہے جو خدا کی تعلیمات کو لوگوں میں تبلیغ کرتا ہے ۔ 15 کچھ لوگ خداوند کی تعلیمات سنتے ہیں ۔ لیکن شیطان ان میں ڈالے گئے کلام کو نکال کر باہر کردیتا ہے اور یہ لوگ راستے کے کنارے بوئے ہوئے بیج کی نمائند گی کرتے ہیں ۔ 16 اور کچھ دوسرے لوگ جو خداوند کا کلام سنتے ہیں اور خوشی سے جلدی قبول بھی کر لیتے ہیں ۔ 17 لیکن وہ اس کلام کو اپنے دل کی گہرائی میں جڑ پکڑنے کا موقع ہی نہیں دیتے ۔ وہ اس کلام کو تھوڑی دیر کے لئے ہی رکھتے ہیں ۔اس کلام کی نسبت سے ان پر کوئی مصیبت آئے یا ان پر کوئی ظلم و زیادتی ہو تو وہ اس کو بہت جلد ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔ انکی تمثیل پتھریلی زمین پر بیج گرنے کی طرح ہے۔ 18 اور چند لوگ کانٹے دار جھاڑیوں کے بیچ بوئے ہوئے بیج کی طرح ہے یہ لوگ کلام کو تو سنتے ہیں ۔ 19 لیکن زندگی کے تفکرات، دولت کا لالچ اور کئی دوسری آرزوئیں ان کے دلوں میں اتری بات کو بڑھنے سے روکتی ہے ۔ اس وجہ سے ان کی زندگی میں یہ کلام پھل دار نہیں ہوتا۔ 20 اور بعض لوگ اس بیج کی طرح ہوتے ہیں جو زرخیز زمین پر گرے ہوں جب وہ کلام کو سنتے ہیں تو قبول کرکے پھل دیتے ہیں بعض مواقع پر تیس گنا زیادہ اور بعض اوقات ساٹھ گنا سے زیادہ اور بعض اوقات سو گنا سے زیادہ پھل دیتے ہیں ۔” 21 پھر یسوع نے کہا، “کیا تم جلتے چراغ کوکسی برتن کے اندر یا کسی پلنگ کے نیچے رکھوگے؟ نہیں بلکہ چراغ کوچراغ دان میں رکھتے ہو۔ 22 ہر وہ چیز جو چھپی ہو ئی ہے اسے ظاہر کر دی جائے گی اور ہر وہ چیزجو پوشیدہ اور راز میں ہو اس پر سے پردہ اٹھا دیا جائیگا اور وہ واضح ہوجائیگی ۔ 23 میری بات سنے والے توجہ سے سنو ! 24 تم جن باتوں کو سن رہے ہو غور سے سنو ۔ جن ناپُوں ناپتے ہو ان ہی میں تم ناپے جاؤگے تم نے جتنا دیا ہے اس سے بڑھ کر وہ دینگے ۔ 25 جس کے پاس کچھ ہے اس کو اور زیادہ دیا جائیگا ۔ جس کے پاس کچھ نہ ہو اس سے جو بھی ہے لے لیا جائیگا۔“ 26 پھر یسوع نے کہا ,” خدا کی بادشاہت زمین میں تخم ریزی کر نے والے آدمی کی مانند ہے۔ 27 کسان سو رہا ہو یا جاگتا ہو دانہ رات دن بڑھتا ہی رہتا ہے۔ کسان نہیں جانتا کہ دانہ کس طرح بڑھتا ہے ۔ 28 زمین پہلے پودے کو پھر بالیوں کو اور اسکے بعد دانوں سے بھری بالی کو خود بخود پیدا کرتی ہے ۔ 29 پھر کہا جب بالی میں دا نہ پختہ ہوتا ہے تو کسان فصل کاٹتا ہے “اس کو فصل کاٹنے کا زمانہ کہتے ہیں ۔ “ 30 پھر یسوع نے کہا ،” خدا کی باد شاہت کے بارے میں وضاحت کرنے کے لئے میں تم کو کونسی تمثیل دوں ؟ ۔ 31 اس نے کہا خدا کی باد شاہت را ئی کے دا نہ کی مانند ہو تی ہے تم زمین میں جن دانوں کو بوتے ہو ان میں رائی ایک بہت چھوٹا دا نہ ہے ۔ 32 جب تم اس دا نے کو بوتے ہو تو وہ خوب بڑھتا ہے اور تمہارے باغ کے دیگر پیڑوں میں وہ بہت بڑا ہوتا ہے اس کی بڑی بڑی شاخیں ہو تی ہیں ۔ جنگل کے پرندے وہاں آکر اپنے گھونسلے بنا تے ہیں ۔ اور سورج کی گرمی سے محفوط ہو تے ہیں۔“ 33 یسوع ایسے بیشمار تمثیلوں کے ذریعے بہ آسانی سمجھ میں آنے والی باتوں کی تعلیم دیتے رہے ۔ 34 یسوع ہمیشہ تمثیلوں کے ذریعہ لوگوں کو تعلیم دیتے رہے لیکن جب ان کے شاگرد ان کے سامنے ہوتے تو ان کو وہ سب کچھ وضاحت کرکے سمجھا تے تھے ۔ 35 اس روز شام یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ،”میرے ساتھ آؤ جھیل کے اس کنارے پر جائینگے ۔” 36 یسوع اور انکے شاگرد وہاں کے لوگوں کو وہیں پر چھوڑ کر چلے گئے ۔ 37 وہ جا ہی رہے تھے کہ جھیل پر بھیا نک آندھی چلنی شروع ہو گئی ۔ اونچی اونچی لہریں کشتی سے ٹکرا نے لگیں ۔ کشتی تقریباً پانی سے بھر گئی ۔ 38 یسوع کشتی کے پچھلے حصّے میں تکیہ پر سر رکھکر سو رہے تھے شاگرد ان کے قریب جا کر انہیں جگایا اور انہیں کہا ، “اے استاد ! کیا آپکا ہم سے تعلق نہیں ؟ ہم پانی میں ڈوبے جا رہے ہیں۔” 39 یسوع نے نیند سے بیدار ہوکر آندھی اور لہروں کو حکم دیا ، “پرُ جوش نہ ہو خاموش رہو تب آندھی تھم گئی اور جھیل پر موت کا سا سکوت چھا گیا۔ 40 یسوع نے اپنے شاگر دوں سے کہا ، “تم کیوں گھبراتے ہو ؟ کیا تم میں ابھی یقین پیدا نہیں ہوا “۔ 41 شاگرد خوفزدہ ہو گئے اور ایک دوسرے سے کہا ، “یہ کون ہو سکتا ہے؟ ہوا اور پانی پر بھی اس کا تصّرف ہے ۔ “ 1 یسوع اور اس کے شاگرد جھیل کے پار گراسینیوں کے ملک میں گئے ۔ 2 یسوع جب کشتی سے باہر آئے تو دیکھا کہ ایک آدمی قبروں سے نکل کر اس کے پاس آیا اس پر بد روح کے اثرات تھے ۔ 3 وہ قبروں میں رہتا تھا اس کو باندھ کر رکھنا کسی کے لئے ممکن نہ تھا اس کو زنجیروں میں جکڑ دینا بھی کوئی فائدہ مند ثابت نہ ہوا ۔ 4 لوگوں نے کئی مرتبہ اس کے ہاتھ پیر باندھنے کیلئے زنجیروں کا استعمال کیا ۔ لیکن وہ ان کو اکھا ڑ پھینک دیا ۔کسی میں اتنی قوّت نہیں تھی کہ اس کو قابو میں کرے ۔ 5 وہ رات دن قبرستان میں قبروں کے اطراف اور پہاڑوں پر چلتا پھرتا تھا اور چیختے ہوئے اپنے آپ کو پتھروں سے کچل دیتا تھا۔ 6 یسوع اس سے بہت دور کے فاصلے پر تھے اس شخص نے اُسے دیکھا اور دوڑ تے ہوئے جاکر اس کے سامنے دراز ہوا آداب بجا لایا اور سجدہ کیا 7 یسوع نے اس سے کہا ، “اے بد روح اس کے اندر سے تو باہر آجا “اس شخص نے اونچی آواز میں چلّا تے ہوئے کہا ، “اور عرض کیا اے یسوع سب سے عظیم خدا کا بیٹا مجھ سے تو کیا چاہتا ہے ؟ خداوند کی قسم کھا کر کہتا ہوں مجھے تکلیف نہ دے“۔ 8 9 پھر یسوع نے اس سے پوچھا ، “تیرا نام کیا ہے “اس نے جواب دیا “میرا نام لشکر ہے کیوں کہ مجھ میں کئی بد روحیں ہیں ۔ “ 10 اس آدمی کے اندر کی بدروحیں یسوع سے بار بار التجا کرنے لگیں کہ مجھے اس علاقے سے باہر نکا لا نہ جا ئے۔ 11 وہاں سے قریب پہاڑی پر سؤروں کا ایک غول چر رہا تھا ۔ 12 بد روحوں نے یہ کہتے ہوئے یسوع سے عرض کیا ، “ہم سب کو سؤروں کے ساتھ بھیج دے ۔ اور ہمیں ان میں داخل ہونے کی اجازت دے “۔ 13 جونہی ان کو یسوع سے اجا زت ملی تو وہ اس آدمی میں سے نکل کر سؤروں میں گھس گئی ۔ تب تمام سؤر پہاڑ سے اتر کر جھیل میں گر کر ڈوب گئے۔ اس غول میں تقریباً دو ہزار سؤر تھا۔ 14 سؤر کی دیکھ بھال کرنے والے لوگ شہر میں آئے اور باغات میں گئے اور لوگوں کو واقف کرایا ۔ تب لوگ جو واقعہ پیش آیا اس کو دیکھنے کے لئے آئے۔ 15 وہ یسوع کے پاس آئے انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی جو مختلف بد روحوں سے متاثر تھا اور کپڑے پہنے ہوئے وہاں بیٹھا ہے۔ وہ آدمی ہوش و حواس میں تھا وہ لوگ اس کو دیکھ کر ڈر گئے ۔ 16 بعض لوگ وہاں موجود تھے اور یسوع نے جو کیا اس کو دیکھا ان لو گوں نے دوسرے لوگوں سے کہا کہ اس شخص کو جس کے اندر بد روحیں ہیں اُس کو کیا پیش آیا ۔اور انہوں نے سؤروں کے بارے میں بھی کہا ۔ 17 تب لوگوں نے یسوع کو اپنا ملک چھوڑ کر جا نے کی گزارش کی۔ 18 جب یسوع وہاں سے جانے کے لئے کشتی میں سوار ہو نے کی تیّاری کر رہے تھے تو اس وقت وہ آدمی جو بد روحوں سے نجات پائی تھی ۔یسوع سے درخواست کی کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلونگا ۔ 19 لیکن یسوع اس کو اپنے ساتھ لے جا نے سے انکار کردیا اور کہا ، “تو اپنے گھر جا اور اپنے دوستوں کے پاس جا ۔ اور خدا وند نے تیرے ساتھ جو بھلائی کی ہے اور اس نے تیرے ساتھ جو مہربانی کا سلوک کیا ہے ان کو بتا۔” 20 اس وقت وہ وہاں سے چلا گیا اور یسوع نے اس کے ساتھ جو احسان کیا تھا اسے اس نے دکپُلس کے لوگوں کو معلوم کرا دیا ۔ تو وہ لوگ نہایت متعجب ہوئے ۔ 21 یسوع دوبارہ کشتی میں جھیل کے اس پارکنا رے پہنچے جھیل کے کنارے بہت سارے لوگ ان کے اطراف جمع ہو گئے۔ 22 یہودی عبادت خانہ کا ایک عہدیدار وہاں آیا۔اس کا نام یائر تھا اس نے یسوع کو دیکھااور اس کے سامنے گر کر سجدہ کیا اور بہت التجا کی۔ 23 “میری چھو ٹی بیٹی مر رہی ہے برائے مہر بانی آپ آئیں اور اپنے ہاتھوں سے اس کو چھو ئیں تب وہ صحت یاب ہوجائیگی اور پھر سے جی سکے گی ۔ 24 یسوع عہدیدار کے ساتھ گئے ۔کئی لوگ یسوع کے پیچھے ہو لئے اور وہ انکے اطراف دھّکا پیل کر رہے تھے۔ 25 ان لوگوں میں ایک عورت تھی جسے بارہ سال سے خون جاری تھا ۔ 26 وہ بہت تکلیف میں مبتلا تھی ۔ اس کو تکلیف سے نجات دلانے کے لئے بہت سے طبیبوں نے نہایت کوشش کی اس کے پاس جو روپیہ پیسہ تھا وہ سب خرچ ہو گیا ۔ اس کے با وجود وہ صحت نہ پائی ۔ اس کا مرض بد تر ہو رہا تھا ۔ 27 اس کو یسوع کے بارے میں معلوم ہوا اس لئے وہ لوگوں کی بھیڑ میں پیچھے سے آکر ان کے چغے کو چھوئی۔ 28 اس خاتون نے سوچا کہ “ان کا لباس چھونا کافی ہے میں صحت مند ہو جاؤنگی ۔” 29 چھو تے ہی اس کا جاری خون رک گیا اور اپنی صحت یابی کا اسے احساس ہوا۔ 30 یسوع نے محسوس کیا کہ اس میں سے کچھ قوّت چلی گئی ہے اور وہ وہیں پر ٹھہر کر پیچھے مڑکر دیکھا اور پوچھا ، “میرے لباس کو کس نے چھوا ہے ؟” 31 شاگردوں نے کہا، “آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجمع آپ پر ہر طرف سے گر پڑ رہے ہیں ایسے میں آپ پوچھ رہے ہو کہ مجھے کون چھوا ؟” 32 اس نے چاروں طرف نگاہ کی تا کہ جس نے یہ کام کیا تھا اسے دیکھے ۔ 33 عورت کو معلوم تھا کہ اس کو شفا ء ہوگئی ہے اس وجہ سے وہ عورت کھڑی ہوکر ڈرتی ہوئی یسوع کے سامنے آئی اور سجدہ میں گر گئی اور سارا حال سچ سچ بتادی ۔ 34 یسوع نے اس سے کہا ، “بیٹی تیرے عقیدہ ہی کی وجہ سے تجھے شفا ہوئی ہے اطمنان و تسلّی سے جا ۔ اس کے بعد تجھے اس بیماری کی کوئی تکلیف نہ ہوگی۔” 35 یسوع وہاں پر باتیں کرہی رہے تھے کہ اسی اثناء میں چند لوگ یہودی عبادت خانہ کے عہدیدار یائر کے گھر سے آکر اس سے کہا ، “تیری بیٹی مر گئی ہے ۔ اب ناصح کو تکلیف دینے ضرورت نہیں ہے۔ “ 36 لیکن یسوع ان کی با توں پر توجہ دیئے بغیر یہودی عبادت خانہ کے عہدیدار سے کہا ، “تو گھبرا مت صرف یقین و عقیدہ رکھ۔ 37 یسوع اپنے ساتھ پطرس ، یعقوب ،اور یعقوب کے بھائی یوحنّا کو آنے کی اجازت دی ۔ 38 یسوع اور یہ شاگرد یہودی عبادتخا نہ کے عہدیدار یائر کے گھر گئے ۔ یسوع نے دیکھا کہ وہاں بہت سارے لوگ زارو قطار رورہے ہیں اور وہاں پر بہت زیادہ شور تھا ۔ 39 یسوع گھر میں داخل ہوئے اور اُن لوگوں سے کہا ، “تم سب کیوں رو رہے ہو ؟ اتنا شور کیو ں کر رہے ہو ؟ یہ لڑکی مری نہیں بلکہ سوئی ہوئی ہے ۔” 40 لیکن ان سب لو گوں نے یسوع پر ہنسنا شروع کیا۔ 41 یسوع نے اس لڑکی کا ہاتھ پکڑکر اس سے کہا ، “تلیتا قومی“ اس کے معنٰی” اے چھوٹی لڑکی اٹھ جا میں تجھ سے کہہ رہا ہوں” ۔ 42 فوراً لڑکی اٹھی اور چلنا پھر نا شروع کردی ۔ اس کی عمر تقریباً بارہ سال تھی اس لڑکی کے والدین اور شاگرد بہت حیرت زدہ ہوئے ۔ 43 یسوع نے اس وا قعہ کے بارے میں کسی سے بیان کر نے کے لئے لڑکی کے والدین کو سختی سے منع کیا اور اس لڑ کی کو کھانا کھلانے کے لئے کہا ۔ 1 یسوع وہاں سے نکل کر اپنے شاگردوں کے ساتھ اپنے وطن کو واپس ہوئے ۔ 2 سبت کے دن یسوع یہودی عبادت خانہ میں تعلیم دی انکا بیان سن کر کئی لوگوں نے تعجب کیا اور کہا ,اس علم و معرفت کو اُس نے کہاں سے سیکھا ہے ؟ اس کو کس نے دیا ؟ اور اس کو یہ معجزے کی طاقت کہاں سے آئی ؟ 3 یہ توصرف بڑھئی ہے ۔اس کی ماں مریم ہے یہ یعقوب ،یوسیس ، یہوداہ اور شمعون کا بھائی ہے اس کی بہنیں یہاں ہمارے ساتھ ہیں ۔” ان لوگوں نے یسوع کو قبول نہیں کیا۔ 4 یسوع نے لوگوں سے کہا ، “دُوسرے لوگ تو نبی کی تعظیم کرتے ہیں ۔لیکن نبی کو اپنے وطن میں اور اپنے خاص لوگوں میں اور اپنے ہی گھر میں ہی عزت نہیں ملتی ۔” 5 یسوع اس گاؤں میں زیادہ معجزے نہ دکھا سکے ۔اُس نے اپنے ہاتھوں کو چند بیماروں کے اوپر رکھ کر انکو تندرست کیا ۔اس کے علاوہ اس نے کوئی معجزہ نہیں دکھا ئے۔ 6 ان لوگوں میں عقیدہ کی پختگی نہ پاکر یسوع کو حیرت ہوئی ۔تب یسوع نے ان علاقوں کے مختلف گاؤں میں جاکر لوگوں کو تعلیم دی ۔ 7 یسوع بارہ حواریوں کو ایک ساتھ بلا کر ان کی دو دو کی جوڑی بنا کر باہر بھیج دیا یسوع بد رُوحوں کو قبضہ میں رکھنے کا اختیار ان کو دے دیا ۔ 8 یسوع نے ان سے کہا ، “تم سفر پر جا تے وقت اپنے ساتھ لاٹھی کے سوا اور کوئی چیزنہ لینا ۔ نہ توشہ اور نہ کوئی تھیلی اور نہ تمہاری جیبوں میں کوئی پیسے رہیں۔ 9 جوتیاں پہنو اور تم جس لباس کو پہنے ہو بس وہی کافی ہے ۔ 10 جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو اس گاؤں کو چھوڑنے تک تم اس گھر میں رہو ۔ 11 جس گاؤں میں تم کو قبول نہ کریں اور تمہاری تعلیمات کاا نکا ر کریں وہاں اپنے پیروں کی دھول اور گرد کو جھاڑ دو اور اس گاؤں کو چھوڑ دو ۔یہ بات ان کے لئے انتباہ کی ہوگی۔” 12 شاگرد وہاں سے نکل کر دیگر مقاموں کو گئے اور لوگوں میں تبلیغ کی اور کہا کہ اپنے گنا ہوں سے تو بہ کرو ۔ 13 بد رُوحوں سے متاثر بے شمار لوگوں کو شاگر دوں نے صحت بخشی اور کئی بیماروں کو تیل مَل کر صحتیاب کئے۔ 14 یسوع اب مشہور ہو چکے تھے ہیرو دیس باد شاہ کو اس کے متعلق معلوم ہوا چند لو گوں نے کہا، “وہ یو حنّا بپتسمہ دینے والا ، یہ پھر دو بارہ جی اٹھا ہے ۔ اسی وجہ سے وہ معجز ے بتا نے کے لا ئق ہے۔” 15 پھر چند لوگوں نے کہا “یہ ایلیاہ ہے “اور دوسرے لوگوں نے کہا ، “یسوع نبیوں کی طرح جو پہلے گزر چکے ہیں ، ایک نبی ہے ۔ 16 ہیرو دیس بادشاہ نے یسوع کے بارے میں لوگوں سے کہی جا نے والی ان تمام باتوں کو سنا اور کہا ،یوحّنا جس کا سر میں نے کٹوایا ہے کیا وہ اب پھر زندہ ہوکر آیا ہے؟” 17 خود ہیرو دیس باد شاہ نے یوحنّا کو قید کر نے کیلئے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا تھا اس لئے وہ یو حنّا کو قید میں ڈال دیا ۔ ہیرودیس نے اپنی بیوی ہیرودیاس کو خوش کر نے کے لئے ایسا کیا ۔ہیرودیاس ہیرودیس کے بھا ئی فلپس کی بیوی تھی ۔ لیکن بعد میں ہیرو دیس نے ہیرودیاس سے شادی کرلی۔ 18 یوحنا ّنے جو ہیرودیس سے کہا تھا ، “یہ تیرے لئے صحیح نہیں ہے کہ تو اپنے بھائی کی بیوی سے شادی کرے۔ 19 اسی وجہ سے ہیرودیاس یوحنّا سے نفرت کرنے لگی ۔اور اس کو قتل کروانا چاہا۔ 20 لیکن وہ ایسا نہ کر سکی ۔ ہیرودیس یوحنّا کو قتل کرانے کے لئے خوفزدہ ہوا لوگوں نے یوحنا کو مقدس آدمی ،نیک اور شریف آدمی سمجھتے تھے یہ بات ہیرو دیس کو معلوم تھی ۔ اسی وجہ سے ہیرودیس نے یوحنا کی حفاظت کی ۔ہیرودیس جب یوحنا کی تبلیغ سنتا تھا تو بے چین ہو جا تا تھا ۔ اس کے با وجود اس کی تعلیمات کو وہ پو رے اطمینان اور خوشی سے سنتا تھا۔ 21 ایک مرتبہ یو حنا کو مار ڈالنے کا سنہرا مو قع ہیرودیاس کو ملا ۔ اس دن ہیرو دیس کی سا لگرہ کا دن تھا ۔ ہیرودیس حکومت کے اہم عہدیداروں کو اور فوج کے سپہ سالا رکو اور گلیل کے قائدین کو کھا نے کی دعوت پر مدعو کیا تھا۔ 22 ہیرودیاس کی بیٹی اس کھا نے کی دعوت میں آکر رقص کر نے لگی ۔ ہیرو دیس اور اس کے ساتھ کھا نا کھانے والو ں کو بہت خوشی ہوئی ۔ اس وقت بادشاہ ہیرودیس نے اس لڑکی سے وعدہ کیا اور کہا ، “تجھے جو مانگنا ہے وہ مانگ لے میں تجھے عطا کرونگا ۔ “ 23 پھر اس نے وعدہ لیکر کہا :اگر میری سلطنت سے آدھی سلطنت کا مطالبہ بھی کرے تو میں تجھے دونگا۔” 24 لڑکی نے اپنی ماں کے پاس جاکر پوچھا ، “میں کیا مانگوں ؟” اس کی ماں نے کہا بپتسمہ دینے والے یوحنا کا سر مانگ“۔ 25 وہ لڑکی تیزی سے بادشاہ کے پاس گئی اور کہا ،” بپتسمہ دینے والے یو حنا کا سر ایک طبق میں اسی وقت دے۔“ 26 ہیرودیس بہت رنجیدہ ہوا لیکن اس نے لڑکی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جو بھی مانگے گی اس کو دیا جائیگا سب لوگ جو ہیرو دیس کے ساتھ کھا نا کھا رہے تھے انہوں نے بھی سنا ۔ اس لئے اس نے انکا ر کرنا مناسب نہ سمجھا ۔ 27 بادشاہ ہیرودیس یوحنا کا سر کاٹ کر لا نے کے لئے ایک سپا ہی کو روا نہ کیا اور اس نے قید خا نہ میں یو حنا کا سر کا ٹ کر ۔ 28 طبق میں رکھ کر لا یا اور اس لڑکی کو دیا ۔ اس نے اس سر کو اپنی ماں کو دیا ۔ 29 اس واقعہ کو یوحنا کے شاگردوں نے جان لیا وہ لوگ آکر یو حنا کا جسم لے گئے اور اس کو ایک قبر میں رکھ دیا ۔ 30 یسوع نے جن رسو لوں کو تبلیغ کر نے کے لئے بھیجا تھا وہ واپس آ ئے اور جو کچھ انہوں نے کہا ان واقعات کو سنا یا۔ 31 یسوع اور ان کے شاگرد ایک ایسی جگہ پر تھے۔ جہاں بے حساب لوگ آ تے جاتے تھے۔اور ان کے شاگردوں کو کھا نے تک کے لئے وقت نہ رہتا تھا۔یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، “میرے ساتھ چلو ہم پرُ سکون جگہ پر جا کر تھوڑا آرام کریں گے۔” 32 پس یسوع اور اس کے شاگرد کشتی پر سوار ہو ئے اور ایسی جگہ گئے جہاں لوگ نہیں تھے۔ 33 ان کو جا تے ہو ئے کئی لو گوں نے دیکھا انہیں معلوم تھا کہ وہ یسوع ہی تھے۔اس وجہ سے لوگ تمام قر یوں سے اس جگہ آکر اس کے وہاں آنے سے پہلے ہی مو جود تھے۔ 34 یسوع جب وہاں آیا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ ان کے انتظارمیں ہیں ۔چرواہے بغیربکریوں کی طرح رہنے والوں کودیکھ کردکھی ہوئے اور ان کو کئی باتوں کی تعلیم دی۔ 35 پہلے ہی دیر ہو چکی تھی۔یسوع کے شاگرداس کے قریب آ ئے او ر ان سے کہ، “کو ئی بھی شخص اس جگہ بسر نہیں کر تا۔ اور بہت دیر ہو چکی ہے۔ 36 اسلئے لو گوں کو بھیج دیں تا کہ وہ اطراف واکناف کے باغات اور شہروں سے کھا نے کے لئے کچھ خریدیں”۔ 37 لیکن یسوع نے کہا ، “تم انہیں کو تھو ڑا سا کھا نا دے دو” شاگر دوں نے یسوع سے کہا، “ان لوگوں کے لئے ہم حسب ضرو رت رو ٹی کہاں سے لا ئیں۔ ہمیں اس کے لئے کم از کم دو سو دینار چاہئے جس سے انہیں مطلوب غذا پہنچیے۔” 38 یسوع نے شاگردوں سے کہا، “تمہا رے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟ جاؤ اور دیکھو “شاگردوں نے جا کر گنا اور وا پس آئے اور کہا، “ہما رے پاس پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں۔” 39 تب یسوع نے شاگردوں سے کہا،” ہری گھاس پر لو گوں سے کہو کہ قطار باندھ کر بیٹھ جائیں۔” 40 لوگ قطاریں بنا کر گروہ کی شکل میں بیٹھ گئے ہر ایک قطار میں پچا س سے سو تک لوگ تھے۔ 41 یسوع نے پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں نکال کر آسمان کی طرف دیکھا روٹی کے لئے خدا کا شکر ادا کیا اس کے بعد روٹیوں کو توڑ کر شاگردوں کو دیں اور ہدایت کی کہ اس کو لو گوں میں بانٹ دیں ۔اسی طرح دو نوں مچھلیوں کو ٹکڑے کرکے لوگوں میں تقسیم کر نے کے لئے اپنے شاگر دوں کو دیا۔ 42 تمام لوگ شکم سیر ہو کر کھا ئے ۔ 43 اس کے بعد لوگ جو پوری روٹیاں کھا نہ سکے بچی ہوئی روٹیاں اور مچھلیوں کو شاگر دوں نے جب ایک جگہ جمع کیا تو ان سے بارہ ٹو کریاں بھر گئیں ۔ 44 وہاں تقریباً پانچ ہزار لوگوں نے کھا نا کھایا ۔ 45 تب یسوع نے اپنے شاگر دوں کو کشتی میں سوار ہو نے کے لئے کہا ۔ یسوع نے ہدا یت کی کہ وہ جھیل کے اس پار بیت صیدا جائیں اور کہا کہ تھوڑی دیر بعد وہ آئیگا ۔ یسوع وہاں رک گئے تا کہ لو گوں کو گھر جا نے کے لئے سمجھایا جائے۔ 46 یسوع لو گوں کو رخصت کر نے کے بعد پہاڑ پر گئے تا کہ عبادت کی جا ئے۔ 47 اس رات کشتی جھیل کے بیچ میں تھی یسوع اکیلے ہی زمین پر تھے ۔ 48 یسوع نے کشتی کو دیکھا جو جھیل میں بہت دور تھی اور وہ شاگرد ان کو کنا رے پر پہونچا نے کے لئے سخت جد و جہد کر رہے تھے ۔ ہوا انکے مخا لف سمت میں چل رہی تھی صبح کے تین سے چھ بجے کے درمیا ن یسوع پا نی پر چلتے ہوئے کشتی کے قریب آکر ان سے آگے نکل جا نا چا ہا ۔ 49 لیکن پا نی پر چلتے ہوئے جب ان کے شا گر دوں نے اسے دیکھا تو اسے بھوت سمجھا اورخوف کے مارے چلّا نے لگے ۔ 50 تمام شاگردوں نے جب یسوع کو دیکھا تو بہت گھبرائے ۔ لیکن یسوع نے ان سے باتیں کیں اور کہا ، “فکر مت کرو ! یہ میں ہی ہوں ! گھبراؤ مت ۔” 51 پھر یسوع اس کشتی میں ان کے ساتھ سوار ہوئے تب ہوا رک گئی شاگر دوں کو حیرت ہوئی۔ 52 پانچ روٹیوں سے پانچ ہزار لوگوں کے کھا نے کا واقعہ کو دیکھ چکے تھے لیکن اب تک اس کے معنی سمجھ نہ سکے ۔ ان کے ذہن بند ہو گئے تھے ۔ 53 یسوع کے شاگر د جھیل پار کر کے گنیّسرت گاؤں کو آئے اور کشتی جھیل کے کنا رے باندھ دی ۔ 54 وہ جب کشتی سے باہر آئے تو لوگوں نے یسوع کو پہچان لیا ۔ 55 یسوع کی آمد کی اطلاع دی ۔ اس علاقے میں رہنے والے سبھی لوگ دوڑنے لگے جہاں بھی لوگوں نے سنا کہ یسوع آئے تو لوگ بیماروں کو بستروں سمیت لا رہے تھے ۔ 56 یسوع اس علا قے کے شہر وں گاؤں اور باغات کو گئے وہ جس طرف جا تے تھے لوگ بازاروں میں بیماروں کو بلا لا تے تھے اور وہ یسوع سے گزارش کرتے تھے کہ ان کو اپنے چغہ کے دا من کو چھو نے کا موقع دے ۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے اس کے چغے کو چھوا تھا وہ تندرست ہو گئے ۔ 1 چند فریسی اور کچھ شریعت کے معلّمین یروشلم سے آئے وہ یسوع کے اطراف جمع ہوئے۔ 2 فریسیوں اور شریعت کے معلّمین نے دیکھا کہ یسوع کے چند شاگرداپنے ہاتھوں کو دھوئے بغیر”گندے ہاتھوں “سے کھانا کھا تے ہیں۔ 3 فریسیوں اور ُدوسرے تمام یہودی لوگوں نے ایک خاص طریقے سے ہاتھوں کو دھو ئے بغیر کھانا نہ کھا تے تھے وہ اپنے آبا ء و اجداد سے آ ئے ہو ئے اصولوں کی تعمیل کر تے تھے۔ 4 جب بازار میں وہ کسی بھی چیز کو خرید تے تو بطور خاص اس کو دھو ئے بغیر ہر گز نہیں کھا تے تھے۔ لو ٹا کٹورہ برتن وغیرہ دھو نے کے وقت بھی وہ اپنے بڑوں سے آئے ہو ئے اصولوں کی پا بندی کرتے تھے۔ 5 فریسیوں اور شریعت کے معلّمین نے یسوع سے پوچھا،”ہمارے بزرگوں کے رواج کو توڑ تے ہو ئے آ پکے شاگرد گندے ہاتھوں سے کھانا کیوں کھاتے ہیں ؟”۔ 6 یسوع نے کہا،” تم سب ریا کار ہو ۔تمہارے بارے میں یسعیا ہ نے بہت خوب کہا ہے: 7 اور میری عبا دت کر تے ہیں کوئی فائدہ نہیں ہے بیکار ہے 8 اس نے کہا تم نے خدا کے حکم کو رد کیا۔ لیکن لو گوں کی تعلیمات کی پیر وی کر رہے ہو۔” 9 تب یسوع نے ان سے کہا، “بڑی چالا کی سے خداوند کے احکامات کا انکار کرتے ہو اور اپنی تعلیمات کی تعمیل کر تے ہو۔ 10 موسیٰ نے کہا تھا تمہیں چاہئے کہ اپنے ماں باپ کی تعظیم کریں کو ئی بھی شخص اپنے ما ں باپ کو برا بھلا کہا تو اس کو موت کی سزا ہو نی چاہئے۔ 11 لیکن تم کہتے ہو کو ئی بھی اپنے ماں باپ سے یہ کہہ سکتا ہے “میرے پاس کچھ تھا جس سے میں تمہا ری مدد کر سکتا ہوں مگر میں یہ تحفہ خدا کے لئے رکھ چکا ہوں ۔ 12 اس طرح اس کو اجا زت نہیں کہ اپنے ماں باپ کے لئے کچھ کر سکے۔ 13 اس لئے تم تعلیم دیتے ہو کہ حدا کے احکامات کی تعمیل اہم نہیں ہے تم سوچتے ہو کہ تم جن روحوں کی تعلیم لوگوں کو دیتے ہو اس کا بجا لا ناضروری ہے۔” 14 یسوع مسیح نے پھر دوبا رہ لوگوں کو اپنے پاس بلا کر کہا ، “میں جو بھی کہہ رہا ہوں اس کو تم سب سنو اور اس کو سمجھو۔ 15 کو ئی چیز ایسی نہیں ہے جو کہ با ہر سے انسان کے اندر داخل ہو کر اس کو گندہ اور نا پاک کر دیتی ہو اور اس نے کہا مگر ایک انسان کو اس کے اندر سے آنے والے معاملات و ارادے ہی گنسے اور نا پاک بنا دیتے ہیں”۔ 16 کچھ یونانی صحیفوں میں آیت۱۶ کو جوڑا گیا ہے جو اس طرح ہے “تم لوگ جو میں کہتا ہوں سنو”- 17 پھر یسوع نے لو گوں کو وہیں پر چھوڑا اور گھر چلے گئے شاگردوں نے اس تمثیل کی با بت ان سے پوچھا۔ 18 یسوع نے جواب دیا، “کیا دوسروں کی طرح تم کو یہ سمجھ میں نہیں آتا؟ ایک آدمی کے اندر جا نے وا لی کو ئی چیز بھی کسی کو گندہ اور نا پاک نہیں کر تی کیا یہ بات تمہیں معلوم نہیں۔ 19 اس نے کہا کہ کسی بھی غذا انسانی جسم میں پیٹ کے اندر کے حصّہ میں داخل ہو تی ہے نہ کہ دل میں۔ اس کے بعد وہ ایک نالی کے ذریعہ وہاں سے با ہرنکل جاتی ہے “۔”اس طرح کھائی جانے والی کو ئی بھی غذا گندی اور نا پاک نہیں ہو تی۔ 20 اس کے علاوہ یسوع نے ان سے کہا،” ایک انسان کے اندر آ نے والے ارادے ہی اس کو گندہ اور نا پاک بنا تے ہیں۔ 21 یہ ساری برُی چیزیں ایک انسان کے باطن میں انسان کے اندر سے شروع ہوتی ہیں ,دماغ میں برے خیالات بد کا ریاں ، چوری اور قتل ، ۔ 22 زنا کاری پیسوں کی حرص برا ئی ،دھوکہ ر یا کاری ، حسد ، چغل خوری ، غرور اور بے وقوفی ۔ 23 تمام خراب خصلتیں برے خیالات و خراب باتیں انسان کے اندر سے آ کر آدمی کو گندہ اور نا پا ک بنا تی ہیں ۔” 24 یسوع اس جگہ کو چھوڑ کر صور شہر کے اطراف و اکناف والے علا قے میں گئے ۔ یسوع وہاں ایک مکان کے اندر گئے ۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ جس مقام پر رہے گا وہاں کے لوگوں کو اس کے موجود ہو نے کا علم نہ ہو ۔ اس کے با وجود بھی اس کو چھپ کر رہنا ممکن نہ ہوا ۔ 25 جلد ہی ایک عورت کو معلوم ہوا کہ یسوع وہاں ہے ۔ اس کی چھوٹی بیٹی کو بد روح کے اثرات ہوئے تھے ۔ اس وجہ سے وہ عورت یسوع کے پاس آئی اور اس کے قد موں پر گر کر اس نے سجدہ کیا ۔ 26 وہ سیریا کے علا قے فینسیلکی میں پیدا ہوئی تھی وہ یو نا نی تھی ۔ اس نے یسوع سے عرض کیا کہ میری بیٹی پر جو بد روح کے اثرات ہیں اس کو وہ با ہر نکال دے۔ 27 یسوع نے اس عورت سے کہا ، “لڑکوں کو دی جا نے والے روٹی کتّوں کے سامنے ڈا ل د ینا منا سب نہیں ۔ اور اپنی پسند کی غذا بچّوں کو پہلے کھا نے دیں۔ “ 28 عورت نے جواب دیا ، “خداوند یہ سچ ہے ۔ لیکن بچّوں سے نہ کھا ئے گئے اور انکے گرائے ہوئے روٹی کے ٹکڑے میزکے نیچے رہنے وا لے کتّے تو کھا سکتے ہیں ۔” 29 اس وقت یسوع نے اس عورت سے کہا ، “تو نے بہت ہی اچھا جواب دیا جا تیری بیٹی پر سے بد روح کا سا یہ دور ہو گیا ہے” 30 وہ عورت جب اپنے گھر گئی تو کیا دیکھتی ہے کہ اس کی لڑ کی بستر پر سوئی ہوئی ہے اور اس پر سے بد روح کے اثرات دور ہو گئے ہیں 31 پھر یسوع تائیر شہر کے اس علا قے کو چھوڑ کر صیدا شہر کی راہ سے دکپلس کے علاقے سے گزرتے ہوئے گلیل کی جھیل کو پہنچے ۔ 32 جب وہ وہاں تھے تو لو گوں نے ایک بہرے اور ہکلے کو بلا لائے اور یسوع سے عرض کیا کہ اس پر ہاتھ پھیر کر اس کو تندرستی دیں۔ 33 یسوع نے اس کو بھیڑ میں سے الگ لے گئے اور اپنی انگلیاں اس کے کا نوں میں ڈالیں اور تھوک کر اس کی زبان کو چھوا ۔ 34 پھر آسمان کی طرف دیکھ کر آہ بھری اور کہا، افتح افتح یعنی کھل جا” 35 اسی وقت اس کے کان کھل گئے ۔ زبان لچکدار ہوئی اور وہ بالکل صاف اور واضح آواز میں بات کر نے لگا۔ 36 یسوع نے لوگوں کو سختی سے حکم دیا کہ وہ کسی سے اس واقعہ کو نہ بتا ئیں اپنے بارے میں کسی کو معلوم نہ ہو نے پا ئے کہ یسوع لوگوں کو ہدایت کر تے تھے ۔ اس کے باوجود لوگ اس کے بارے میں اور زیادہ تشہیر کرتے ۔ 37 لوگوں نے بہت حیرت زدہ ہو کر کہا ، “یسوع ہر چیز اچھے انداز سے کرتے ہیں وہ بہرے لوگوں کو سننے کے اور گونگوں کو بات کرنے کے قابل بنا تے ہیں ۔” 1 ایک اور موقع پر یسوع کے ساتھ کئی لوگ تھے ان کے پاس کھا نے کو کچھ نہ تھا یسوع نے اپنے شاگردوں کو بلا یا اور کہا ۔ 2 “میں ان لوگوں پر بہت ترس کھا تا ہوں یہ تین دنوں سے میرے ساتھ ہیں ان کے پاس کھا نے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔ 3 اور کہا کہ یہ کچھ کھا ئے بغیر گھر کے لئے سفر شروع کریں تو را ستے میں نڈھال ہو جا ئینگے ۔ ان لوگوں میں بعص وہ ہیں جو بہت دور سے آ ئے ہیں۔“ 4 شا گر دوں نے جواب دیا ،” یہاں سے قریب کو ئی گاؤں نہیں ہے ۔ ان لوگوں کے لئے ہم اتنی رو ٹیاں کہاں سے فرا ہم کریں کہ جو سب کے لئے کا فی ہوں“۔ 5 یسوع نے ان سے پو چھا “تمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں ؟” شاگردوں نے جواب دیا ، “ہمارے پاس سات روٹیاں ہیں۔“ 6 یسوع نے ان لوگوں کو زمین پر بیٹھنے کے لئے کہا ۔ اس کے بعد ان سات روٹیوں کو لیکر اور خدا کا شکر ادا کر کے ان کوتوڑ کر اپنے شاگر دوں کو دیا ، “تا کہ ان لوگوں میں تقسیم کردے ۔ شاگردوں نے ایسا ہی کیا ۔ 7 شاگر دوں کے پاس چند چھوٹی مچھلیاں تھیں ۔ یسوع نے ان مچھلیوں کے لئے خدا کا شکر ادا کر کے ان لوگوں میں بانٹ دینے کے لئے شا گردوں کو ہدا یت دی۔ 8 تمام لوگ کھا نا کھا کر سیر ہو گئے ۔ اس کے بعد پھر جب شاگردوں نے کھا نے کے بعد بچے ہوئے تمام ٹکڑوں کو جمع کیا تو اس سے سات ٹوکریاں بھر گئی 9 وہاں کھا نا کھا نے والوں میں کو ئی چار ہزار مرد آدمی تھے جب وہ کھا نے سے فارغ ہوئے تو یسوع نے ان کو بھیج دیا ۔ 10 پھر اس نے اپنے شاگردوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہو کر دلمنو تہ کے علا قے میں گئے۔ 11 فریسی یسوع کے نز دیک آکر اس کو آز ما نے کے لئے اس سے مختلف سوالات کر نے لگے۔انہوں نے یسوع سے پو چھا ، “اگر تو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے تو کو ئی آ سما نی نشا نی بتا یا معجزہ دکھا؟ 12 تب یسوع نے گہری سانس لے کر ان سے کہا، “تم لوگ معجزہ کو کیوں پوچھتے ہو ؟ میں تم سے سچ کہتا ہوں تمہیں کوئی آسمانی نشانی دکھا ئی نہیں جائیگی ۔ “ 13 ادھر یسوع فریسیوں کے پاس سے نکل کر کشتی کے ذریعہ جھیل کے اس پار دو بارہ چلے گئے ۔ 14 شاگردوں کے پاس کشتی میں صرف ایک ہی روٹی تھی وہ زیادہ روٹیاں لا نا بھول گئے تھے ۔ 15 یسوع نے ان کو تا کید کی “ہوشیار رہو فریسی اور ہیرو دیس کی خمیر کے بارے میں خبر دار رہو۔“ 16 اس بات پر شاگر دوں نے آپس میں گفتگو اور بحث کرنے لگے اور سوچا کہ “ہمارے پاس روٹی نہ ہو نے کی وجہ سے انہوں نے ایسا کہا ہے ۔ “ 17 یسوع کو معلوم ہو گیا کہ شاگرد اس بارے میں باتیں کر رہے ہیں ۔ اس وجہ سے اس نے ان سے کہا ،” روٹی کے نہ ہو نے پر تم گفتگو کیوں کرتے ہو ؟ کیا تم دیکھ نہیں سکتے کیا تمہیں سمجھ میں نہیں آتا ؟ کیا تمہارے دل ایسے سخت ہو گٹے ہیں ؟ ۔ 18 اگر چہ کہ تم آنکھیں رکھتے ہو دیکھ نہیں سکتے اور تم کان رکھتے ہو سن نہیں سکتے اس سے قبل ایک مرتبہ جب کہ ہمارے پاس زیادہ مقدار میں روٹیاں نہ تھیں تو میں نے اس وقت کیا کیا تھا یاد کرو؟ 19 میں نے پانچ ہزار آدمیوں کے لئے پانچ روٹیاں توڑ کر تمہیں دی تھیں کیا تمہیں یاد نہیں کھا نے کے بعد بچی ہوئی روٹیوں کے ٹکڑوں کو کتنی ٹوکریوں میں بھردیا گیا تھا “۔ان شاگردوں نے جواب دیا، “ہم نے انکو بارہ ٹوکریوں میں بھر دیا تھا۔” 20 میں نے چار ہزار لوگوں کے لئے سات روٹیاں توڑ کر دی تھیں یاد کرو ۔ وہ کھا نے کے بعد بچی ہوئی روٹیوں کے ٹکڑے تم نے کتنی ٹوکریوں میں بھر دیا تھا ؟ “اور کیا یہ بات تمہیں یاد نہیں ہے “اس پر شاگردوں نے جواب دیا ، “ہم سات ٹوکریاں بھر دیئے تھے ۔” 21 یسوع نے ان سے پوچھا ، “میں نے جن کا موں کو انجام دیا ہے تم ان کو یاد رکھے ہو اسکے با وجود کیا تم ان کو نہیں سمجھتے ؟” 22 یسوع اور اسکے شاگرد بیت صیدا کو آئے ۔چند لوگوں نے یسوع کے پاس ایک اندھے کو لائے اور یسوع سے گزارش کرنے لگے کہ اس اندھے کو چھوئے ۔ 23 تب یسوع اس اندھے کا ہاتھ پکڑ کر اس کو گاؤں کے باہر لے گئے ۔ پھر یسوع نے اس کی آنکھوں میں تھوکا 24 اس اندھے نے سر اٹھایا اور کہا ، “ہاں میں لوگوں کو دیکھ سکتا ہوں وہ درختوں کی مانند دکھا ئی دیتے ہیں جو ادھر ادھر چل پھر رہے ہیں ۔ “ 25 یسوع نے اپنا ہاتھ پھر دو بارہ اندھے کی آنکھوں پر رکھا تب اس نے اپنی آنکھوں کو پوری طرح کھولا ۔ اس کی آنکھیں اچھی ہو گئیں وہ ہر چیزکو صاف دیکھنے لگا ۔ 26 یسوع نے اس کو یہ کہکر بھیج دیا کہ تو سیدھا اپنے گھر چلا جا ۔”اور گاؤں نہ جا نا ۔” 27 یسوع اور اسکے شاگرد قیصریہ فلپی کے گاؤں میں چلے گئے ۔ دوران سفر یسوع نے ان سے پوچھا “میرے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں ؟”۔ 28 شاگردوں نے جواب دیا بعض لوگ تجھے بپتسمہ دینے والا یوحنا کہتے ہیں اور دیگر لوگ ایلیاہ اور کچھ لوگ تجھے نبیوں میں سے ایک کہتے ہیں۔ 29 یسوع نے ان سے پوچھا “میرے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟” پطرس نے جواب دیا “تو مسیح ہے“۔ 30 یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ،” میں کون ہوں کسی سے نہ بتا نا”۔ 31 تب یسوع اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں ابن آدم کو بہت سی تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں ۔ یہودی بزرگ قائدین کاہنوں کے رہنما اور شریعت کے معلّمین ابن آدم کو قتل کریں گے لیکن تیسرے دن وہ موت سے زندہ اٹھ آ ئیگا ۔ 32 آئندہ پیش آنے والے سارے واقعات کو یسوع نے ان سے کہا اور اس نے کسی بات کو راز میں نہیں رکھا ۔ پطرس یسوع کو تھوڑی دور لے گیا اور اس بات پر احتجاج کیا کہ” تو کسی سے ایسا نہ کہنا” ۔ 33 تب یسوع نے اپنے شاگردوں کی طرف دیکھ کر پطرس کو ڈانٹ دیا کہ “اے شیطان میری نظروں سے دور ہوجا ! تیرا انداز فکر لوگوں جیسا ہے خدا کے جیسا نہیں!۔” 34 پھر یسوع نے لوگوں کو اپنے پاس بلایا ۔ انکے شاگر د وہا ں پر موجود تھے ۔ یسوع نے ان سے کہا “اگر کوئی چا ہتا ہے کہ وہ میری پیروی کرے تو وہ اپنے آپ کو نفی کے مقام پر لائے اور اپنی صلیب کو اٹھا ئے ہوئے میری پیروی میں لگ جائے ۔ 35 وہ جو اپنی جان بچا نا چاہتا ہے وہ اس کو کھو دیگا جو میری اور اس خوش خبری کی خاطر اپنی جان دیتا ہے وہ اس کی حفاظت کریگا ۔ 36 ایک آدمی جو ساری دنیا کا مالک تو ہے لیکن اگر وہ اپنی جان کھوتا ہے تو پھر اس کو کیا فائدہ ۔ ؟ 37 ایک آدمی دوبارہ جان خرید نے کے لئے کیا دے سکتا ہے ؟۔ 38 پھر یسوع نے کہا بد کار اور اس خراب نسل میں کوئی بھی اگر مجھ سے شرمائے گا تو جب ابن آدم اپنے باپ کے جلال اور فرشتوں کے ساتھ آئیگا تو وہ بھی اس سے شرمائیگا۔ 1 تب یسوع نے لوگوں سے کہا” میں تم سے سچ ہی کہتا ہوں ۔ یہاں ٹھہرے ہوئے تم میں سے چند لوگ موت کا مزہ نہیں چکھیں گے جب تک یہ نہ دیکھ لیں کہ خدا کی سلطنت ، قدرت و اقتدار کے ساتھ رہے”۔ 2 چھ دن بعد ایسا ہوا کہ یسوع نے پطرس ،یعقوب ،اور یوحنا کو ساتھ لیکر اونچے پہاڑ پر چلے گئے وہاں ان کے سوائے اور کو ئی نہ تھا یہ شاگرد یسوع کو دیکھ ہی رہے تھے کہ و 3 یسوع کے کپڑے سفید چمک رہے تھے ۔ اتنے سفید کپڑے تیّار کرنا کسی کے لئے ممکن نہ تھا ۔ 4 تب موسٰی اور ایلیاہ وہاں ظاہر ہوئے اور یسوع کے ساتھ باتیں کر نی شروع کیں۔ 5 پطرس نے یسوع سے کہا،” اے استاد ہمارا یہاں رہنا بہتر ہے ۔ ہم یہاں تین شامیانے نصب کرینگے ۔ ایک تیرے لئے ایک مو سیٰ کے لئے اور ایک ایلیاہ کے لئے” ۔ 6 پطرس نہیں جانتا تھا کہ کیا کہے کیو ں کہ وہ اور دیگر شاگرد بہت زیادہ خوف زدہ تھے ۔ 7 تب ابر آیا اور ان پر سایہ فگن ہوا ۔ اس بادل میں سے ایک آواز آئی” یہ میرا چہیتا بیٹا ہے اس کے فرماں بردار ہو جاؤ “۔ 8 تب پطرس ،یعقوب اور یوحنا آنکھ کھول کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا صرف یسوع ان کے ساتھ وہاں تھے ۔ 9 یسوع اور وہ شاگرد پہاڑ سے نیچے اتر کر واپس آ رہے تھے انہوں نے اس کو حکم دیا “جو کچھ تم نے پہاڑ پر دیکھا ہے ان کو کسی سے نہ کہنا ۔ ابن آدم کے مر کر پھر زندہ ہوکر آنے کا انتظار کرو“۔ 10 اس طرح شاگردوں نے یسوع کی بات مانی اور جو کچھ دیکھا اس کے بارے میں کچھ نہ کہا ۔ لیکن مر نے کے بعد جی اٹھنا اس کا مطلب کیا ہے ۔ اس سلسلے میں آپس میں باتیں کر نے لگے ۔ 11 شاگردوں نے یسوع سے پوچھا “شریعت کے معلّمین کہتے ہیں کہ ایلیاہ کو پہلے آنا چا ہئے اس کی وجہ کیا ہے ؟”۔ 12 یسوع نے جواب دیا انکا کہنا درست ہے” ایلیاہ کو پہلے آنا چاہئے ۔ کیوں کہ جس طرح ہو نا چاہئے اس طرح وہ ہر چیز کو راستے پر لا ئے گا لیکن ابن آدم بہت سی تکالیف کو برداشت کریں گے اور لوگ اس کو حقیر جا نیں گے صحیفہ ایسا کیوں کہتا ہے ؟ ۔ 13 لیکن میں تمہیں کہتا ہوں ایلیاہ تو کبھی کا آ چکا ہے اور پھر لوگ اپنے دل میں جیسا چا ہا ویسے ہی اس کی برائی کی ۔ اس کے ساتھ اس طرح کی سلوک کی بات صحیفوں میں پہلے ہی لکھا ہوا تھا “۔ 14 پھر یسوع پطرس ،یعقوب اور یوحنا اور دوسرے شاگرد وں کے پاس گئے تو ان شاگردوں کے اطراف بہت سے لوگ جمع ہوئے تھے ۔ شریعت کے معلّمین ان کے ساتھ بحث کر رہے تھے 15 جب ان لو گوں نے یسوع کو دیکھا تو متعجب ہوئے اور اسکا استقبال کر نے کے لئے اس کے نزدیک پہنچے۔ 16 یسوع نے ان سے پوچھا ، “تم شریعت کے معلّمین کے ساتھ کیا گفتگوکر رہے تھے؟” 17 مجمع میں سے ایک آدمی نے کہا ,” اے استاد! میرے بیٹے کو بد روح کا اثر ہو گیا ہے اس بد روح نے میرے بیٹے کی بات چیت کر نے کی صلاحیت روک لی ہے ۔ جس کی وجہ سے اس کو آپ کے پاس لا یا ہوں ۔ 18 وہ بد روح جب بھی اس پر قابض ہوتی ہے تو اس کو زمین پر گرا دیتی ہے میرا بیٹا منھ سے کف گرا تا ہے اور دانتوں کو پیستا ہے اور بہت ہی سخت بن جا تا ہے اس کو اس بد روح سے آزاد کرانے کے لئے میں نے تیرے شاگردوں سے پوچھا ۔ لیکن یہ کام ان سے ممکن نہ ہو سکا “۔ 19 یسوع نے جواب دیا،” اے بے اعتقاد نسل میں کب تک تمہارے ساتھ مزید کتنی مدّت رہوں ؟ اور کتنی مدّت بر داشت کروں ؟ اس لڑ کے کو میرے پاس لاؤ۔” 20 تب شاگر داس لڑکے کو یسوع کے پاس لائے ۔ اس بد روح نے یسوع کو دیکھتے ہی اس لڑ کے پر حملہ کر دی ۔ وہ لڑکا نیچے گرا اور منھ سے کف گرا تا ہوا تڑپنے لگا۔ 21 یسوع نے اس لڑ کے کے باپ سے پوچھا،” کتنے عرصے سے یہ کیفیت ہے”؟ باپ نے اس بات کا جواب دیا” بچپن ہی سے ایسا ہوتا ہے ۔ 22 بد روح اکثر اسے آگ اور پا نی میں پھینکتی ہے تا کہ اسے ہلاک کریں ۔ اگر آپ سے یہ بات ممکن ہو تو برائے مہربانی ہمارے اوپر رحم اور مدد کر”۔ 23 یسوع نے اس کے باپ کو جواب دیا” تو ایسی بات کیوں کہتا ہے اگر آپ سے ہو سکے ؟ ایمان رکھنے والے آدمی کے لئے ہر بات ممکن ہوتی ہے۔ 24 اس لڑکے کے باپ نے پرُ جوشی سے جواب دیا ،” میں یقین کرتا ہوں ۔ اور زیادہ پختہ یقین کے لئے میری مدد کر”۔ 25 وہاں پیش آئے ہوئے واقعات کو دیکھنے کے لئے تمام لوگ دوڑ تے ہوئے آئے اس وجہ سے یسوع نے اس بد روح سے کہا اے بد روح ! تو نے اس لڑ کے کو بہرا اور گونگا بنا دیا ہے ۔ میں تجھ کو حکم دیتا ہوں کہ اس لڑ کے سے باہر آجا اور اس میں دو بارہ داخل مت ہو “۔ 26 وہ بد روح چلّائی ۔ وہ بد روح اس لڑکے کو دو بارہ زمین پر گرا کر تڑپا کر باہر آئی وہ لڑکا مردے کی طرح گرا ہوا تھا کئی لوگ سمجھے کہ” وہ مر گیا ہے “۔ 27 لیکن یسوع نے اس لڑکے کا ہاتھ پکڑکر اٹھا یا اور کھڑا ہو نے میں اس کی مدد کی۔ 28 یسوع جب گھر میں چلے گئے تو اس کے شاگرد تنہائی میں اس سے دریافت کیا “اس بد روح سے نجات دلانے ہم سے کیوں ممکن نہ ہوسکا” ؟ 29 یسوع نے جواب دیا “اس قسم کی بد روح کو دعا کے ذریعے ہی سے چھٹکارہ دلا ئی جا سکتی ہے ۔” 30 اس کے بعد یسوع اور اس کے شاگردوں نے اس مقام سے نکل کر گلیل کے راستے سے سفر کیا ۔ یسوع کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو اس بات کاا ندازہ نہ ہو کہ وہ کہاں ہے ۔ 31 کیوں کہ وہ اپنے شاگردوں کو تنہائی میں یقین دلا نا چاہتے تھے ۔ یسوع نے ان سے کہا” ابن آدم کو لوگوں کے حوالے کیا جائے گا ۔ اور لوگ اس کو قتل کریں گے ۔ قتل ہونے کے تیسرے دن وہ زندہ ہو کر دوبارہ آئیگا “۔ 32 لیکن یسوع نے شاگردوں سے جو کہا وہ اس کا مطلب نہ سمجھ سکے ۔ اور اس بات کو وہ پو چھتے ہوئے گھبرا رہے تھے ۔ 33 یسوع اور اس کے شاگر د کفر نحوم گئے ۔ وہ جب ایک گھر میں تھے تو اس نے اپنے شاگردوں سے پوچھا ، “آج راستے میں تم بحث کر رہے تھے وہ میں نے سن لی تم کس کے متعلق بحث کر رہے تھے ؟”۔ 34 لیکن شاگردوں نے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ وہ آپس میں بحث کر رہے تھے کہ ان میں سب سے عظیم کون ہے۔ 35 یسوع بیٹھ گئے اور بارہ رسولوں کو اپنے پاس بلا کر ان سے کہا، “تم میں سے اگر کوئی بڑا آدمی بننے کی آرزو کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ ان سب کو خود سے بڑا سمجھے اور انکی خدمت کرے”۔ 36 پھر یسوع ایک چھوٹے بچے کو بلا کر اس بچے کو شاگر دوں کے سامنے کھڑا کر کے اس کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر ان سے کہا،۔ 37 “جو کوئی میرے نام پر اپنے بچوں میں سے ایک کو قبول کرتا ہے گویا وہ مجھے قبول کرتا ہے ۔ اور جو کوئی مجھے قبول کر تا ہے گویا وہ مجھے نہیں بلکہ اسے قبول کر تا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے ۔ 38 اس وقت یوحنّا نے اس سے کہا” اے استاد ! کسی شخص کو تیرے نام کے تو سط سے ایک شخص کو( بھوت ) بد روح سے چھٹکا رہ دلا تے ہو ئے ہم نے دیکھا ہے۔ جب کہ وہ ہما را آد می نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہم نے اس سے کہا کہ رک کیوں کہ وہ ہمارے گروہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا”۔ 39 یسوع نے ان سے کہا،” اس کو مت رو کو میرا نام لے کر جو معجزے دکھا ئے گا۔ وہ میرے بارے میں بری باتیں نہیں کہے گا ۔ 40 جو شخص ہمارا مخالف نہیں ہے وہ ہمارے ساتھ ہے 41 میں تم سے سچ ہی کہتا ہوں کہ تم کو اگر کوئی آدمی مسیحی سمجھ کر پینے کے لئے پانی دے تو ضرور اس کو اس کی نیکی کا بدلہ ملے گا ۔ 42 ان چھوٹے بچوں میں سے کسی ایک کو اگر کوئی گناہ کے راستے پر چلانے والا ہو تو اس کے لئے یہ بہتر ہو گا کہ وہ اپنے گلے سے چکّی کا ایک پاٹ باندھ کر سمندر میں ڈوب جائے ۔ 43 اگر تیرا ہاتھ تجھے ہی گناہوں میں پھانستا رہا ہو تو بہتر ہوگا کہ اس کو کاٹ ہی ڈال دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے نہ بجھنے والی آ گ کے جہنم میں جانے سے بہتر یہ ہوگا کہ معذور ہوکر ابدی زندگی ہی کو پائے اور وہ راستہ ایسا ہو گا کہ جہاں کی آ گ ہر گز نہ بجھے گی- 44 اس آیت کو چند یونانی نسخوں نے ۴۴واں آیت ہی تسلیم کیا ہے- اور یہ آیت ۴۸واں آیت ہی ہے-۔ 45 اگر تیرا پاؤں تجھے گناہوں کے کا موں میں ملوث کر رہا ہو تو اس کو کاٹ ڈال دو نوں پیر رکھتے ہوئے دوزخ میں پھینک دیئے جانے سے بہتر یہ ہے کہ تو لنگڑا بن کر رہے۔ 46 اس آیت کو چند یونانی نسخوں نے ۴۶ واں آیت ہی تسلیم کیا ہے– اور یہ ۴۸واں آیت ہے - 47 تیری آنکھیں اگر تجھے گناہوں میں ڈال رہی ہوں تو دو نوں آنکھ رکھتے ہوئے دوزخ میں جانے کی بجائے بہتر یہی ہوگا کہ ایک ہی آنکھ والا ہو کر ہمیشہ کی زندگی کو پا ئے۔ 48 دوزخ میں انسانوں کو کھانے والے کیڑے کبھی مرتے نہیں اور نہ ہی دوزخ کی آ گ کبھی بجھتی ہے۔ 49 ہر آدمی کو آ گ سے سزا دی جائیگی۔ 50 اس نے کہا “نمک ایک بہترین چیز ہے لیکن اگر نمک اپنے ذائقہ کو ضائع کردے تو تم اس کو پھر دوبارہ نمک نہیں بنا سکتے ۔ اسی وجہ سے تم اچھائی کا مجسم بنو ۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہو”۔ 1 تب یسوع اس جگہ سے روانہ ہو کریہوداہ کے علا قے میں اور پھر دریائے یر دن کے اس پار گئے۔ لوگو ں کی ایک بھیڑ دوبا رہ اس کے پاس آ ئی اور یسوع ان کو ہمیشہ کی طرح تعلیم دینے لگے۔ 2 چند فریسی یسوع کے پاس آ ئے اور اس کو آز ما نے لگے اور پوچھا ، “کیا کسی کا اپنی بیوی کو طلاق دینا صیح ہے؟۔ 3 یسوع نے جواب دیا”موسیٰ نے تمہیں کیا حکم دیا ہے؟” 4 فریسیوں نے جواب دیا موسیٰ نے کہا ہے کہ اگر کو ئی شخص اپنی بیوی کو طلا ق دینا چاہے تو وہ اپنی بیوی کو طلاق نا مہ لکھ کر طلاق دے سکتا ہے”۔ 5 یسوع نے کہا،” خدا کی تعلیمات کو قبول کر نے کی بجا ئے انکار کر نے سے موسیٰ نے تم کو وہ حکم دیا ہے۔ 6 جب خدا نے دنیا کو پیدا کیا تو انسانوں کو مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا،۔ 7 اسی وجہ سے مرد نے اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر عورت کو اپنا رفیق حیات بنایا۔ 8 پھر وہ دونوں ایک بن گئے۔ جس کی وجہ سے وہ دونوں الگ نہیں بلکہ ایک ہوتے ہیں ۔ 9 اس طرح جب خدا نے ان دونوں کو ملا یا ہے تو کوئی بھی انسان ان میں جدائی نہ ڈا لے”۔ 10 یسوع اور ان کے شاگرد جب گھر میں تھے شاگردوں نے طلاق کے مسئلہ پر یسوع سے دوبارہ پوچھا ۔ 11 یسوع نے انکو جواب دیا “جو اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسری عورت سے شادی کرے تو اپنی بیوی کے خلاف زنا کا مرتکب ہو تا ہے ۔ 12 اور کہا کہ ایک عورت جو اپنے شوہرکو طلاق دے اور دوسرے مرد سے شادی کرے تو وہ بھی حرام کاری کا قصور وار ہوگی” ۔ 13 لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو یسوع کے پاس لائے یسوع نے ان کو چھوا لیکن شاگردوں نے یہ کہتے ہوئے لوگوں کو ڈانٹ دیا کہ وہ اپنے بچوں کو نہ لے آئیں ۔ 14 یہ دیکھتے ہوئے یسوع نے غصّہ سے انکو کہا چھوٹے بچوں کو میرے پاس آنے دو اور ان کو مت روکو کیوں کہ خدا کی سلطنت ان لوگوں کی ہے جو ان بچوں کی مانند ہیں ۔ 15 میں تم سے سچ کہتا ہوں تم خدا کی بادشاہی کو بچے کی طرح قبول نہ کرو گے تو تم اس میں کبھی داخل نہ ہو سکو گے“۔ 16 تب یسوع نے ان بچوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر گلے لگایا اور ان کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو دعائیں دیں ۔ 17 یسوع وہاں سے نکلنا چاہتے تھے لیکن اتنے میں ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور اسکے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیئے اس شخص نے کہا” اے اچھے استاد ابدی زندگی پا نے کے لئے مجھے کیا کر نا چاہئے؟” 18 یہ سن کر یسوع نے کہا تو مجھے نیک آدمی کہہ کر کیوں بلاتاہے؟ کوئی آدمی نیک نہیں صرف خدا ہی نیک ہے ۔ 19 اگر تو ابدی زندگی چاہتا ہے تو جو تم جانتے ہو اس کی پیروی کرو تجھے تو احکا مات کا علم ہوگا ۔ قتل نہ کر ، زنا نہ کر ، چوری نہ کر ، جھوٹ بولنے سے بچ ،اور کسی آدمی کو دھوکہ نہ دے اور تو اپنے والدین کی تعظیم کر”۔ 20 اس نے جواب دیا، “اے استاد ! میں تو بچپن ہی سے ان احکامات کی پابندی کر رہا ہوں”۔ 21 یسوع نے اس آدمی کو محبت بھری نظروں سے دیکھا اور کہا ، “تجھے ایک کام کرنا ہے ۔ جا اور تیری ساری جائیداد کو بیچ دے اور اس سے ملنے والی پوری رقم کو غریبوں میں بانٹ دے آسمان میں اسکا اچھا بدلہ ملے گا پھر اس کے بعد آکر میری پیروی کرنا”۔ 22 یسوع کی یہ باتیں سن کر اس کے چہرے پر مایو سی چھا گئی اور وہ شخص مایوس ہو کر چلا گیا ۔ کیوں کہ وہ بہت مالدار تھا اور اپنی جائیداد کو قائم رکھنا چاہتا تھا۔ 23 تب یسوع نے اپنے شاگردوں کی طرف دیکھ کر کہا ، “مالدار آدمی کو خدا کی سلطنت میں داخل ہو نا بہت مشکل ہے“۔ 24 یسوع کی یہ باتیں سن کر ان کے شاگرد چونک پڑے ۔ لیکن یسوع نے دو بارہ کہا ، “میرے بچو! خدا کی سلطنت میں داخل ہونا بہت مشکل ہے ۔ 25 ایک اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے پار ہونا آسان ہے بنسبت اس امیر آدمی کے کہ جو خدا کی سلطنت میں داخل ہو”۔ 26 شاگرد مزید چوکنا ہوکر ایک دوسرے سے کہنے لگے،” پھر کون بچا ئے جائینگے۔؟ 27 یسوع نے شاگردوں کی طرف دیکھ کر کہا یہ بات تو انسانوں کے لئے مشکل ہے لیکن خدا کے لئے نہیں خدا کے لئے ہر چیز ممکن ہے“۔ 28 پطرس نے یسوع سے کہا” تیرے پیچھے چلنے کے لئے ہم نے تو سب کچھ قربان کردیا ہے!” 29 یسوع نے کہا،” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو شخص میری خا طر اور خوشخبری کے لئے اپنا گھر یا بھا ئی یابہن یا ماں باپ یا بچے یا زمین کو قربان کردیا تو ۔ 30 وہ سو گنا زیادہ اجر پائیگا ۔ اس دنیا کی زندگی میں وہ شخص کئی گھروں کو بھائیوں کو بہنوں کو ،ماؤں کو ، بچوں کو اور زمین کے ٹکڑوں کو پائیگا ۔مگر ظلم و زیادتی کے ساتھ ۔ اس کے علاوہ آنے والی دنیا میں ہمیشہ کی زندگی کو پائیگا۔ 31 اور پھر کہا کہ وہ بہت سے لوگ کہ جو پہلے والوں میں ہیں ۔ وہ بعد والوں میں ہو جائیں گے اور جو بعد والوں میں ہیں وہ پہلے والوں میں ہو نگے”۔ 32 یسوع اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ تھے یروشلم کو جا رہے تھے یسوع انکی نمائندگی کر رہے تھے۔ ان کے شاگرد حیران و پریشان تھے۔ اور جو لوگ ان کے پیچھے آرہے تھے وہ بھی خوف زدہ تھے۔یسوع نے اپنے بارہ رسو لوں کو دوبارہ اکٹھا کیا ان سے تنہا ئی میں بات کی ۔یسوع نے یروشلم میں اپنے ساتھ پیش آ نے والے واقعات کے بارے میں سنانا شروع کیا۔ 33 “ہم یروشلم جا رہے ہیں۔ ابن آدم کو کاہنوں کے رہنما اور معلّمین شریعت کے حوالے کیا جائے گا ۔ وہ اس کو موت کی سزا دی کر قتل کرینگے اور اس کو غیر یہودیوں کے حوالے کریں گے ۔ 34 وہ لوگ اس کو دیکھ کر اس کا مذاق اڑا ئینگے اور اس پر تھو کیں گے اور اس کو چا بک سے ماریں گے پھر اس کو قتل کریں گے ۔ لیکن وہ تیسرے ہی دن پھر جی اٹھے گا ۔ 35 پھر زبدی کے بیٹے یعقوب اور یوحنا دونوں یسوع کے پاس آئے اور کہا اے استاد ! ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری گزارش پوری کریں “۔ 36 یسوع نے پوچھا ، “تمہاری کونسی خواہش مجھ کو پوری کرنی چاہئے “؟۔ 37 ان دونوں نے جواب دیا “جب تو اپنی سلطنت میں جلال کے ساتھ رہے گا تو ہم دونوں میں سے ایک کو اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اور دوسرے کو اپنے بائیں ہاتھ کی طرف بٹھا نے کی مہر بانی کر نا”۔ 38 یسوع نے ان سے کہا تم نہیں جانتے ، “تم کیا پوچھ رہے ہو ؟ کیا تم وہ مصائب دکھ اٹھا سکتے ہو جو میں نے اٹھا ئے ہیں ؟ میں جس بپتسمہ کو لینے والا ہوں کیا تمہارے لئے اس بپتسمہ کا لینا ممکن ہو سکیگا”؟۔ 39 انہوں نے جواب دیا، “ہاں ہمارے لئے ممکن ہے” یسوع نے ان سے کہا، “تم بھی اسی طرح دکھ اٹھا ؤگے جس طرح میں اٹھا نے جا رہا ہوں مجھے جو بپتسمہ لینا ہے کہ کیا وہ تم لوگے ؟ ۔ 40 میرے دائیں اور بائیں جانب بیٹھنے والے افراد کا انتخاب کر نے والا میں نہیں ہوں وہ جگہ جن کے لئے تیار کی گئی ہے وہ انہی کے لئے جگہ محفوظ کر لی گئی ہے۔ 41 دوسرے دس شاگردوں نے اس بات کو سن کر یعقوب اور یوحنا پر غصّہ کیا۔ 42 یسوع نے تمام شاگردوں کو ایک ساتھ بلا کر کہا ، “غیر یہودی کے وہ سردار جن کو لوگوں پر اختیار ہے اور ان اختیارات کو وہ لوگوں کو دکھانے کی کوشش کر تے ہیں ۔ تم جانتے ہو کہ وہ قائدین لوگوں پر اپنی قوت کا اظہار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور انکے اہم قائدین لوگوں پر اپنے تمام اختیارات استعمال کر نے کی چاہت رکھتے ہیں ۔ 43 مگر تم میں ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ جو تم میں بڑا ہونا چا ہے وہ تمہارا خادم بنے ۔ 44 تم میں جو سب سے اہم بننے کی خواہش کرنے والا ہے وہ ایک غلام کی طرح تم سب کی خدمت کرے ۔ 45 اسی طرح ابن آدم لوگوں سے خدمت لینے کے لئے نہیں آیا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کر نے کیلئے آیا ہے ۔ ابن آدم خود اپنی جا ن دینے کے لئے آیا ہے ۔ تا کہ لوگ بچ سکیں ۔ 46 تب وہ سب جریکو کے گاؤں میں آئے یسوع اپنے شاگردوں اور دیگر کئی لوگوں کے ساتھ اس گاؤں کو چھوڑ کر نکل رہے تھے ۔ تومائی کا بیٹا برتمائی جو اندھا تھا ۔ راستے کے کنارے پر بیٹھ کر بھیک مانگ رہا تھا ۔ 47 جب اس نے سنا کہ یسوع ناصری اس راستے سے گزرتا ہے تو اس نے چلا نا شروع کیا” اے یسوع داؤد کے بیٹے مجھ پر کرم فرما”۔ 48 کئی لوگوں نے اس اندھے کو ڈانٹا اور کہا کہ خاموش رہ لیکن وہ اندھا”اور زور سے چلّا یا اے داؤد کے بیٹے ! مجھ پر کرم فرما !”۔ 49 یسوع نے رک کر کہا “اس کو بلا ؤ” انہوں نے اندھے کو بلا یا اور کہا ،” خوش ہو کھڑا رہ کیوں کہ یسوع تجھ کو بلا رہا ہے” ۔ 50 وہ اندھا فوراً کھڑا ہو گیا اور اپنا اوڑھنا وہیں چھوڑکر یسوع کے پاس گیا۔ 51 یسوع نے اس سے پوچھا ، “مجھ سے تو کیا چاہتا ہے” ؟ تب اس اندھے نے جواب دیا ،”اے استاد ! مجھے بصارت دو”۔ 52 یسوع نے اس سے کہا، “جا تیرے ایمان کی وجہ سے تو شفا یاب ہو”ا تب وہ شخص دوبارہ دیکھنے کے قابل ہوا ۔ وہ یسوع کے پیچھے راہ میں چلنے لگا۔ 1 یسوع اور ان کے شاگرد یروشلم کے قریب تک آچکے تھے ۔ وہ زیتون کے پہاڑ کے قریب بیت فگے اور بیت عنیاہ جیسے قریوں کے پاس آئے وہاں سے یسوع نے اپنے شاگر دوں میں سے دو کو کچھ کر نے کے لئے روانہ کیا ۔ 2 یسوع نے شاگر دوں سے کہا ، وہاں نظر آنے والے گاؤں کو چلے جاؤ ۔جب تم اس گاؤں میں داخل ہونگے تو وہاں تم ایک ایسے گدھے کے بچے کو بندھا ہوا پاؤگے کہ جس پر کبھی کسی نے سواری نہ کی ہو ۔ اس گدھے کو کھول کر میرے پاس لاؤ ۔ 3 اگر تم سے کوئی پوچھے کہ ایسا کیوں کر رہے ہو تو کہنا کہ خداوند کو اس کی ضرورت ہے ۔ اور وہ اسکو بہت جلدی واپس بھیج دیگا ۔” 4 شاگرد جب گاؤں میں داخل ہوئے تو راستے میں ملنے والے ایک گھر کے کنارے بندھے ہوئے ایک گدھے کے بچے کو انہوں نے دیکھا ، شاگر دوں نے جاکر اس گدھے کو کھولا تو۔ 5 وہاں کھڑے ہو ئے چند لوگوں نے پوچھا ، تم کیا کر رہے ہو ؟ اور اس گدھے کو کیوں کھول رہے ہو ؟” 6 یسوع نے جو کچھ شاگر دوں سے کہا تھا وہ ویسے ہی جواب دیئے ۔ لہذا لوگوں نے اس گدھے کو شاگردوں کو لیجا نے دیا۔ 7 شاگردوں نے گدھے کو یسوع کے پاس لایا اور اپنے کپڑے اس کے اوپر ڈال دیئے تب یسوع اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے ۔ 8 بہت سارے لوگوں نے یسوع کے لئے راستے پر اپنے کپڑے بچھا دیئے اور دوسرے چند لوگوں نے درختوں کی شاخیں راستے پر پھیلا دیں ۔جسے انہوں نے درختوں سے کاٹی تھی ۔ 9 بعض لوگ یسوع کے سامنے جا رہے تھے ۔ اور بعض لوگ اس کے پیچھے جا رہے تھے ۔اور تمام لوگوں نے نعرے لگائے کہ 10 خدا کی رحمت ہمارے باپ داؤد کی سلطنت پر ہو 11 یسوع جب یروشلم میں داخل ہوئے وہ ہیکل کو گئے اور وہاں کی ہر چیز کو دیکھا لیکن اس وقت تک دیر ہو گئی تھی ۔اس لئے یسوع بارہ رسولوں کے ساتھ بیت عنیاہ کو گئے ۔ 12 دوسرے دن جب یسوع بیت عنیاہ سے جا رہے تھے تو اسے بھوک لگی تھی ۔ 13 اس نے کچھ فاصلے پر پتّوں سے بھرا ایک انجیر کے درخت کو پایا ۔ وہ یہ سمجھ کر کہ درخت میں کچھ انجیر ملیں گے اس کے قریب گئے لیکن درخت میں وہ انجیر نہ پا یا ۔وہاں صرف پتّے تھے ۔کیوں کہ وہ انجیر کا موسم ہی نہ تھا ۔ 14 تب یسوع نے اس درخت سے کہا ، “اس کے بعد پھر لوگ تیرے میوے کبھی نہیں کھا ئیں گے” ۔ شاگردوں نے یسوع کو یہ بات کہتے ہوئے سنا ۔ 15 یسوع اور ان کے شاگرد یروشلم پہونچے یسوع ہیکل میں دا خل ہوئے وہاں انہوں نے لوگوں کی خرید و فروخت کو دیکھا اور سودا گروں کی میز کی طرف پلٹا جو مختلف قسم کی رقم کا تبادلہ کر رہے تھے اور ہیر پھیر کر کے روپیہ جمع کر رہے تھے اور کبوتر فروخت کر رہے تھے ۔ 16 اس نے کسی کو بھی ہیکل کے راستے سے چیزوں کو لا نے لے جا نے کی اجا زت نہ دی۔ 17 اس کے بعد یسوع نے لوگوں کو تعلیم دی کہ” میرا مرکز اور ٹھکا نہ تمام لوگوں کے لئے عبادت خانہ کہلا ئیگا اس طرح صحیفوں میں لکھا ہوا ہے اور کہا کہ تم لوگوں نے خدا کے گھر کو چوروں کے چھپے رہنے کی جگہ بنا لی ہے 18 سردار کاہنوں اور معلّمین شریعت نے ا ن واقعات کو سن کر یسوع کو قتل کرا نے کے لئے مناسب تدبیر کی فکر شروع کردی ۔ وہ یسوع کی تعلیمات کو سن کر بے انتہا حیرت زدہ ہونے کی وجہ سے یسوع سے گھبرا گئے ۔ 19 اس رات یسوع اور اس کے شاگرد وں نے شہر چھو ڑدیا۔ 20 دوسرے دن صبح یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ جا رہے تھے۔پچھلے دن جس انجیر کے درخت کو یسوع نے بد دعا دی تھی اس کو شاگردوں نے دیکھا وہ انجیر کا درخت جڑ سمیت سوکھ گیاتھا۔ 21 پطرس نے اس درخت کو یاد کر کے یسوع سے کہا ، “استاد دیکھو ! کل جس انجیر کے درخت پر آپ نے لعنت کی تھی وہ درخت اب سوکھ گیا ہے”۔ 22 یسوع نے کہا ،” خدا پر ایمان رکھو ۔ 23 میں تم سے سچ ہی کہتا ہوں ۔تم اس پہاڑ سے کہو کہ تو جا کر سمندر میں گر جا اگر تم بغیر شک وشبہ کے یقین کرو۔ تو تم نے جو کچھ کہا ہے وہ یقیناً پورا ہوگا۔خدا تمہارے لئے اس کو مبارک کریگا ۔ 24 میں تم سے کہتا ہوں کہ تم دعا کرو۔اور عقیدہ رکھو کہ وہ سب مل جا ئے گا تو یقین کرو کہ وہ تمہا را ہی ہو گا۔ 25 اور یہ کہتے ہو ئے جواب دیا کہ جب تم دعا کر نے کی تیاری کرو اور تم کسی پر کسی وجہ سے غصہّ اور ناراض ہو، اور اگر یہ بات تمہیں یاد آئے تو اس کو معاف کر دو تا کہ آسمان پر رہنے والا تمہارا باپ تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا”۔ 26 اگرتُم دُوسرے لوگوں کو معاف نہ کرو تو تمہارا باپ بھی جو جنّت میں ہے تمہارے گناہوں کو معاف نہ کرے گا– ”اسطرح یونان کی چند حالیہ نسخوں میں یہ آیت”۲۶”اضافہ کئے گئے ہیں- 27 یسوع اور اس کے دو شاگرددوبارہ یروشلم گئے۔یسوع جب ہیکل میں چہل قد می کر رہے تھے تو سردار کاہن اورمعلمین شریعت اور بزرگ یہودی قائدین اس کے پاس آئے اور ان سے پوچھا۔ 28 وہ دریافت کر نے لگے، “ایسا کو نسا اختیار آپکے پاس ہے کہ جس کی بنا پر آپ یہ سب کچھ کر تے ہیں؟ اور یہ اختیار آ پ کو کس نے دیا ہے” ؟ ہمیں بتا ئیں۔ 29 یسوع نے ان سے کہا میں بھی تم سب سے ایک سوال پوچھتا ہوں ۔اگر تم میرے سوال کا جواب دو گے تو میں تم کو بتا ؤنگا کہ میں کس کے اختیار سے یہ سارے کام کرتا ہوں۔ 30 مجھے معلوم کراؤ کہ یوحنا ّ نے لو گوں کو جو بپتسمہ دیا تو کیا وہ خدا کے اختیار سے تھا یا لوگوں کے اختیار سے”؟ 31 یہودی قائدین اس سوال کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایک دوسرے کہنے لگے” اگر ہم یہ کہیں کہ یوحناّ نے کوگوں کو خدا کے آئے ہوئے اختیار سے بپتسمہ دیا تو پھر یسوع پوچھے گا کہ تم یوحناّ پر ایمان کیوں نہیں لائے؟ “ 32 اگر یہ کہیں کہ یو حنا ّ نے لوگوں کے اختیار سے بپتسمہ دیا تو اس وقت لوگ ہم پر غصّہ ہوں گے “چونکہ لوگوں کا ایمان ہے کہ یوحناّ نبی تھے۔اس طرح وہ آپس میں باتیں کر نے لگے۔جس کی وجہ وہ لوگوں سے خوفزدہ رہے۔ 33 جس کی وجہ سے انہوں نے یسوع کو جواب دیا کہ ہم نہیں جانتے” 1 یسوع نے لو گوں کو تمثیلوں کے ذریعے تعلیم دی اور ان سے کہا ،” ایک شخص نے انگور کا با غ لگایا چاروں طرف دیوار کھڑی کی اور مئے لگا نے کے لئے ایک گڑھا کھدوایا ۔ اور حفاظت و دیکھ بھا ل کے لئے ایک مچان بنوایا ۔ اور وہ چند باغباں کو باغ ٹھیکہ پر دیکر سفر کو چلا گیا۔ 2 پھر ثمر پا نے کا موسم آیا تو اپنے حصّہ میں ملنے والے انگور حاصل کرنے کے لئے مالک نے اپنے ایک خادم کو بھیجا ۔ 3 تب باغبانوں نے اس خادم کو پکڑا اور پیٹا پھر اسے کچھ دیئے بغیر ہی واپس لوٹا دیا ۔ 4 پھر دوبارہ اس مالک نے ایک اور خادم کو باغبانوں کے پاس بھیجا باغباں اس کے سر پر چوٹ لگا ئی اور اس کو ذلیل کیا ۔ 5 پھر اس کے بعد مالک نے ایک اور خادم کو بھیجا باغبانوں نے اس خادم کو بھی مارڈالا پھر مالک نے یکے بعد دیگر کئی خادموں کو باغبانوں کے پاس بھیجا ۔ باغبانوں نے چند خادموں کو پیٹا اور بعض کو قتل کر ڈالا۔ 6 “اس مالک کو باغبانوں کے پاس بھیجنے کیلئے صرف اسکا بیٹا ہی باقی بچا تھا وہ اس آخری فرد کو بھیج رہا تھا وہ اسکا خاص بیٹا تھا ۔ باغبان میرے بیٹے کی تعظیم کرینگے یہ سمجھ کر مالک نے اپنے بیٹے کو بھیج دیا”۔ 7 “تب باغبان ایک دوسرے سے یہ کہنے لگے کہ یہ مالک کا بیٹا ہے جو اس باغ کا مالک ہے اگر ہم اسکو قتل کردیں تو انگور کا باغ ہمارا ہو جائیگا۔ 8 انہوں نے اسکے بیٹے کو پکڑ کر قتل کر دیا اور اسکو انگور کے باغ کے باہر اٹھا کر پھینک دیا۔ 9 “اگر ایسا ہو تو باغ کا مالک کیا کریگا ؟ وہ خود باغ کو جائیگا ۔ اور اس باغ کے مالی کو قتل کرکے باغ کو دوسرے مالی کے حوالے کریگا ۔ 10 کیا تم نے صحیفے کو پڑھا نہیں؟ 11 یہ خدا وند سے ہی ہوا ۔ اور ایسا ہونا ہم کو عجیب و غریب لگتا ہے”۔ 12 یسوع سے کہی ہوئی یہ تمثیل جس کو یہودی قائدین نے سنا تو انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ تمثیل اس نے انہی کے مطابق کہی ہے ۔ اس لئے انہوں نے یسوع کو کرفتار کرنے کی تدبیروں کے با وجود وہ لوگوں سے ڈرے اور اسکو چھوڑ کر چلے گئے ۔ 13 اس کے بعد یہودی قائدین نے چند فریسیوں کو اور ہیرو دیسیوں کو بھیجا کہ کچھ کہے تو اس کو پھانس لیں ۔ 14 فریسی اور ہیرودیسی یسوع کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ “اے معلّم ! تو سچّا ہے ہمیں معلوم ہے اور تجھے اس بات کا بھی خوف نہیں کہ لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور تمام لوگ آپ کی نظر میں ایک ہیں اور آپ خدا کی راہ کے متعلق سچی تعلیم دیتے ہیں ہمیں اچھی طرح معلوم ہے اس لئے ہم سے کہہ دے کہ قیصر کو محصول کا دینا ٹھیک ہے یا غلط ؟ اور پوچھا کہ ہمیں لگان دینا چاہئے یانہیں “؟۔ 15 یسوع سمجھ گئے یہ لوگ حقیقت میں دھوکہ دینے کی تدبیر کررہے ہیں اس لئے انہوں نے ان سے کہا، “میرے باتوں میں غلطیوں کو پکڑنے کی کیوں کوشش کی جاتی ہے ؟مجھے چاندی کا ایک سکّہ دو” میں وہ دیکھنا چا ہتا ہوں” ۔ 16 انہوں نے اسکو ایک سکّہ دیا ۔ یسوع نے ان سے پوچھا ، “سکّہ پر کس کی تصویر ہے ؟ اور اس کے اوپر کس کا نام ہے ؟ انہوں نے جواب دیا” یہ قیصر کی تصویر ہے اور قیصر کا نام ہے” ۔ 17 یسوع نے ان سے کہا ،” قیصر کا قیصر کو دو اور خدا کا خدا کو دو”۔ یسوع نے جو کہا اسے سن کر وہ بے حد حیرت میں پڑگئے ۔ 18 تب بعص صدوقیوں نے ( صدوقیوں کا ایمان ہے کہ کوئی بھی شخص مرنے کے بعد زندہ نہیں ہوتا ۔ ) یسوع کے پاس آکے سوال کیا، ۔ 19 “اے استاد موسیٰ نے یہ صحیفہ ،حکم نامہ ہمارے لئے چھوڑا ہے ایک شادی شدہ انسان جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور وہ مرجائے تو مرحوم کی بیوہ سے اس کا بھا ئی شادی کرلے اور مرے ہوئے بھائی کے گھر نسل کا سلسلہ جاری کرے اس بات کو موسیٰ نے لکھا ہے ۔ 20 سات بھائی رہتے تھے پہلا بھائی شادی تو کر لیا مگر اولاد کے بعیر ہی مر گیا ۔ 21 تب دوسرے بھا ئی نے اس بیوہ سے شادی کی وہ بھی اولاد کے بغیر ہی مر گیا اور تیسرے بھائی کا بھی یہی حشر ہوا ۔ 22 ساتو بھائی اسی سے شادی کئے مگر کسی سے اسکو اولاد نہ ہوئی اور سب کے سب مر گئے آخر کار وہ عورت بھی مر گئی ۔ 23 تب لوگوں نے پوچھا ، “جب قیامت کے دن لوگ موت سے جی اٹھینگے تو وہ عورت ان میں سے کس کی بیوی کہلائیگی”۔ 24 یسوع نے کہا، “تم ایسی غلطی کیو ں کرتے ہو ؟ مقدس صحیفہ ہو یا کہ خدا کی قدرت ہو اس کو تم نہیں جانتے ؟ 25 مرے ہوئے لوگ جب دوبارہ جی اٹھینگے تو شادی بیاہ نہیں ہوگی مرد اور عورتیں دوبارہ شادی نہیں کرینگے ۔ سبھی لوگ آسمان میں رہنے والے فرشتوں کی طرح ہونگے ۔ 26 تم قیامت یعنی لوگوں کی موت سے جی اٹھنے کے بارے میں خدا کی کہی ہوئی باتوں کو یقیناًپڑھتے ہو ۔خدا نے موسیٰ سے کہا ، “میں ابراہیم کا خدا ہوں ،اسحاق کا خدا ہوں، اور یعقوب کا بھی خدا ہوں۔ کیا تم نے موسیٰ کی کتاب میں جھاڑی کے ذکرمیں اس بات کو نہیں پڑھا؟ 27 یہ سب نہیں مرے، کیوں کہ خدا زندوں کا خدا ہے نہ کہ مرُدوں کا ۔ اور 28 اس بحث و مبا حث کو سننے والے معلمین شریعت میں سے ایک یسوع کے پاس آیا، اس نے صدوقیوں اور فریسیوں کے ساتھ یسوع کو حجت کر تے ہوئے سنا۔ 29 تب یسوع نے کہا،” سب سے اہم حکم یہ ہے اے بنی اسرائیلیو سنو، خداوند ہمارا خدا ہی صرف ایک خداوند ہے۔ 30 خداوند اپنے خدا کو تم دل کی یکسوئی کے ساتھ پوری جان کے ساتھ پوری عقلمندی کے ساتھ اور تمام طاقت کے ساتھ اس سے محبت کرو۔ یہی بہت اہم ترین حکم ہے۔ 31 اور کہا تو جیسے خود سے محبت کرتا ہے اسی طرح ا پنے پڑوسیوں سے بھی محبت کر یہی اہم ترین دوسرا حکم ہے ۔ تمام احکام میں یہ دو اہم ترین اور ضروری باتیں ہیں”۔ 32 تب اس نے کہا ، “اے معلّم ! وہ ایک بہت ہی اچھا جواب ہے۔ اور تو نے بہت ہی ٹھیک کہا ہے کہ خداوند ایک ہی ہے اور اس کے سوا دوسرا کوئی نہیں۔ 33 اور انسان کو پو رے دل کی گہرائیوں سے پوری دانشمندی سے اور ہر قسم کی قوت و طاقت سے خدا سے محبت کر نی چاہئے۔ جس طرح ایک آدمی خود سے جیسی محبت کر تاہے۔ایسی ہی دوسروں سے بھی محبت کرے۔ہم جانوروں کی قر بانیوں کو جو خدا کی نذر کر تے ہیں ،یہ احکامات اس سے بڑھ کرہے اور بہت اہم ہے”۔ 34 اس سے عقلمندی کا جواب سن کر یسوع نے اس سے کہا، “تو خدا کی باد شاہت سے بہت قریب ہے اس وقت سے کسی میں اتنی ہمت نہ رہی کہ مزید یسوع سے سوالات کئے جائیں۔ 35 یسوع نے ہیکل میں ان کو تعلیم دیتے ہوئے کہا ، “معلمین شریعت کہتے ہیں کہ یسوع داؤد کا بیٹا ہے ایسا کیوں؟ 36 داؤد نے رُوح القدُس کی مدد سے خود کہا: 37 داؤد نے خود ہی مسیح کو خداوند کے نام سے یاد کیا ہے ۔ اس وجہ سے مسیح ہی داؤد کا بیٹا ہو نا کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟” کئی لوگوں نے یسوع کی باتیں سنی اور بہت خوش ہوئے ۔ 38 یسوع نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور کہا معلّمین شریعت کے بارے میں چوکنّا رہو وہ چوغہ پہن کر گھومنا پسند کرتا ہے ۔ اور بازاروں میں لوگوں سے عزت حاصل کر نا چاہتے ہیں ۔ 39 یہودی عبادت گاہوں میں اور دعوتوں میں وہ اعلیٰ نششتوں کی تمنّا کرتے ہیں ۔ 40 41 یسوع ہیکل میں جب ندرانہ کے صندوق کے پاس بیٹھا تھا تودیکھا کہ لوگ نذرانے کی ر قم صندوق میں ڈال رہے ہیں کئی دولت مندوں نے کثیر رقم دی ۔ 42 پھر ایک غریب بیوہ آئی اور ایک تانبے کا سکّہ ڈالی۔ 43 یسوع نے اپنے شاگر دوں کو بلا کر کہا ،” میں تم سے سچ کہتا ہوں جن لوگوں نے نذرانے ڈالے ہیں ان سب میں اس بیوہ عورت نے سب سے زیادہ ڈالی ہے ۔ 44 دوسرے لوگوں نے اپنی ضروریات میں سے جو بچ رہا ہو اس میں سے تھوڑا سا ڈالا ۔اور اس عورت نے اپنی غربت کے باوجود جو کچھ اس کے پاس تھا اس میں ڈال دی جبکہ وہی اسکی زندگی کا اثاثہ تھا ۔” 1 یسوع جب ہیکل سے باہر آرہا تھا تو اسکے شاگردوں میں سے ایک نے اس سے کہا، “استا د دیکھو ! یہ ہیکل کو بنانے میں کتنے بڑے بڑے پتّھر استعمال کئے گئے ہیں اور یہ کتنی خوبصورت عمارتیں ہیں“ 2 یسوع نے کہا ، “کیا تم ان بڑی عمارتوں کو دیکھ رہے ہو ؟ یہ تمام عمارتیں تو تباہ ہو جائیں گی ۔ ہر پتّھر کو زمین پر لڑھکا دیا جائیگا ۔ ایک پتّھر پر دوسرا پتّھر نہ رہیگا۔“ 3 بعد میں یسوع زیتون کے پہاڑ پر پطرس ، یعقوب ، یوحنا اور اندر یاس کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ انکو وہاں سے ہیکل دکھائی دیا ۔ 4 ان شاگردوں نے یسوع سے پوچھا “یہ سب واقعات کب پیش آئیں گے ؟ اور ان واقعات کو پیش آنے کی کیا نشانی ہوگی جس سے معلوم ہوگا کہ واقعات عنقریب پیش آنے والے ہیں؟۔ 5 تب یسوع نے کہا خبر دار !کسی کو کوئی موقع نہ دو کہ تمہیں دھوکہ دے ۔ 6 کئی لوگ آئینگے تم سے کہیں گے کہ میں ہی مسیح ہوں یہ کہتے ہوئے کئی لوگوں کو فریب دینگے ۔ 7 قریب میں ہونے والی جنگوں کی آواز اور دور کے فاصلوں پر ہونے والی جنگوں کی خبریں تم سنو گے لیکن خوف زدہ نہ ہونا ۔ اس قسم کے واقعات ہونا ہی چاہئے ۔ لیکن اختتام ابھی باقی ہے ۔ 8 قومیں دوسری قوموں کے خلاف لڑیں گی اس دوران حکومتیں دوسری حکومتوں سے لڑیں گی ۔ ایک وقت ایسا آئیگا کہ لوگوں کو کھا نے کی لئے غذا نہ ہوگی ۔ مختلف جگہوں پر زلزلے آئینگے ۔ یہ واقعات دردزہ میں مبتلا عورتوں کی طرح مصیبتوں والے ہونگے۔ 9 ہوشیار رہو ! میری پیروی کرنے کی وجہ سے لوگ تمہیں گرفتار کرینگے ۔عدالتوں کو لے جائے جا ؤگے ۔ اور یہودیوں کی عبادت گاہوں میں تم کو مارا پیٹا کرینگے بادشاہوں اور حاکموں کے سامنے تم کو کھڑا کرکے میرے تعلق سے گواہی دینے کیلئے زبردستی کرینگے ۔ 10 ان واقعات کے پیش آنے سے پہلے تم سب لوگوں کو خوش خبری کی تعلیم دینا 11 تم گرفتار کئے جاؤگے تمہارا محاصرہ ہوگا لیکن تم فکر نہ کرو کہ وہاں تمکو کیا کہنا پڑیگا ۔ اس وقت خدا تمہیں جو سکھائیگا وہی کہنا ہوگا اس وقت بات کرنے والے تم نہیں ہوگے بلکہ روح القدس ہوگا۔ 12 “سگے بھائی اپنے سگے بھائی کو قتل کرنے کیلئے حوالے کر دینگے ۔والدین اپنی خاص اولاد کواور اولاد اپنے خاص والدین کے مخا لف ہوکر انکو قتل کرائینگے۔ 13 تمہارا میری پیروی کرنے کی وجہ سے لوگ تم سے نفرت کرینگے ۔ لیکن آخر دم تک برداشت کرنے والا ہی نجات پائیگا۔ 14 “تباہی پیدا کرنے والی خطرناک چیزوس کو تم دیکھوگے ۔ تم اسکو وہاں کھڑے ہوئے دیکھوگے جہاں اسے نہیں ہونی چاہئے ۔ پڑھنے والا اس کے معنیٰ کو سمجھنا چاہئے ۔ “اس وقت یہوداہ میں رہنے والے لوگوں کو پہاڑ وں میں بھاگ جانا چاہئے ۔ 15 بالا خانہ میں رہنے والا اتر کر نیچے مکان میں سے کچھ لئے بغیر ہی بھاگ جائیگا ۔ 16 کھیت میں رہنے والا اپنا اوڑھنا لینے کیلئے پیچھے م ڑکر نہ دیکھے گا۔ 17 وہ وقت حاملہ عورتوں کے لئے اور ان ماؤں کے لئے جو اپنی گودوں میں بچّو ں کو رکھتی ہیں بہت کٹھن اور سخت ہوگا ۔ 18 دُعا کرو ! یہ واقعات جاڑوں میں نہ ہوں ۔ 19 کیونکہ وہ ایام مصیبتوں سے پرُ ہونگے ۔ جب سے خدا نے اس مخلوق کو پیدا فرمایا ہے ویسی مصیبت اب تک نہیں آئی اور آئندہ بھی واقع نہ ہوگی ۔ 20 خدا ان مصیبت زدہ دنوں کو کم کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کسی انسان کا زندہ بچنا ممکن نہ ہوگا لیکن خدا اپنے منتخب شدہ خاص لوگوں کے لئے اس وقت میں تخفیف کریگا۔ 21 ایسے پر آشوب وقت میں کوئی بھی تم سے کہے گا کہ مسیح وہاں ہے ‘دیکھو یا کوئی کہیگا وہ یہاں ہے ‘ لیکن ان پر بھروسہ نہ کرو ۔ 22 خدا کے منتخب لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے ممکن ہے جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی آئینگے اور معجزے ظاہر کرینگے ۔ 23 ان وجوہات کی بناء پر باخبر رہو ۔ ان تمام باتوں کے واقع ہو نے سے پہلے ان تمام کے بارے میں تم کو انتباہ کرتا ہوں۔ 24 “ان مصیبت کے گزرجانے: 25 تا رے آسمان سے ٹوٹ کر گر پڑیں گے۔ 26 اس و قت ابن آدم کو اقتدار اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے ہوئے لوگ دیکھینگے ۔ 27 ابن آدم اپنے فرشتوں کو زمین کے ہر حصّہ میں بھیج کر اپنے منتخب کردہ لوگوں کو دنیا کے کونے کونے سے یکجا کریگا۔ 28 “انجیر کا درخت ہمیں ایک سبق سکھا رہا ہے جب درخت کی ڈالیاں نرم ہو تی ہیں ۔ اور نئے پتوں کا بڑھنا شروع ہوتا ہے تو تم سمجھتے ہو کہ گرمی کازمانہ قریب آگیا ہے ۔ 29 ٹھیک اسی طرح میں نے تم سے جو واقعات سنائے ہیں ۔ تم اسے پورے ہوتے ہوئے دیکھوگے وہ وقت قریب آنے کے لئے منتظر ہے تم اس کو سمجھ جاؤ۔ 30 میں تم سے سچ ہی کہتا ہوں کہ اس نسل کے لوگ ابھی زندہ ہی رہینگے کہ وہ تمام واقعات پیش آئینگے 31 زمین و آسمان کا مکمل تباہ ہونا ممکن ہو سکتا ہے لیکن میری کہی ہوئی باتیں رد نہیں ہو سکتی۔ 32 مگر وہ دن اور وقت کب آئے گا کوئی نہیں جانتا ہے نہ تو آسمان کے فرشتے اور نہ ہی بیٹا جانتا ہے ، صرف باپ ہی کو اس بات کا پتہ ہے ۔ 33 ہوشیار رہو ! ہمیشہ تیا ررہو وہ وقت کب آئیگا تم نہیں جانتے ۔ 34 یہ اس شخص کی مانند ہے جو سفر پر نکلتا ہے اور اپنا گھر چھوڑ دیتا ہے۔ اور وہ اپنے گھر کی خبر گیری اپنے خادموں کے حوالے کردیتا ہے وہ ہرایک خادم کو ایک خصوصی ذمہ داری دیتا ہے ۔ ایک خادم کو دربان کی ذمہ داری دیتا ہے ۔ اور وہ شخص اُس خادم سے کہتا ہے کہ “تو ہمیشہ تیار رہ اسی طرح میں تم سے کہتا ہوں۔ 35 ہمیشہ تیار رہو گھر کا مالک کب واپس لوٹے گا تمہیں معلوم نہیں ہو سکتا ہے وہ دوپہر میں آسکتا ہے یا آدھی رات کو یا جب مرغ بانگ دے یا طلوع سحر پر ۔ 36 مالک اچانک پلٹ کر واپس آئیگا اگر تم ہمیشہ تیار رہو تو وہ جب آئیگا تو تم بحالت نیندنہ ہوگے ۔ 37 میں تم سے اور ہر ایک سے یہی کہتا ہو ں کہ تیار رہو “! 1 فسح اور بغیر خمیر کی روٹی کی تقریب کے لئے صرف دو دن باقی رہ گئے تھے۔ سبھی سردار کا ہن اور معلمین شریعت یہ چاہئے تھے کہ فریب کے کسی بھی طریقے کو اپنا کر یسوع کوگرفتار کریں اور قتل کر دیں۔ 2 “لیکن انھیں تقریب کے موقع پر یسوع کو گرفتار نہیں کر نا چاہئے یہ بات ممکن نہیں ہے کہ ہم یسوع کو گرفتار کریں ورنہ لوگ غیض وغضب میں آ سکتے ہیں اور فساد بر پا ہو سکتا ہے۔” 3 بیت عنیاہ میں یسوع جب کوڑھی شمعون کے گھر میں کھا نا کھا رہے تھے تو ایک عورت اس کے پاس آئی اس کے پاس ایک بہت قیمتی خوشبو دار عطر کی شیشی تھی۔ یہ عطر خا لص جٹا ما سی سے بنا یا گیا تھا۔ اس نے شیشی توڑی اور تیل کو یسوع کے سر پر ڈالدی۔ 4 وہاں موجودچند شاگردوں نے اس واقعہ کو دیکھا اور بہت غصّہ ہوئے اور اس عورت پر بہت تنقید کی 5 وہ ایک سال بھر کی کمائی سے بڑھکر قیمتی چیز تھی اسکو فروخت کرکے اسی سے ملنے والی رقم کو غریب اور ضرورت مندوں میں بانٹ دینا چاہئے تھا۔“ 6 یسوع نے کہا، “اس عورت کو تکلیف نہ دو ۔ تم اسکو کیوں مشتعل کرتے ہو ؟ اس عورت نے تو میرے ساتھ بہت بھلائی کا کام کیا ہے ۔ 7 تمہارے ساتھ تو غریب لوگ ہمیشہ ہی رہتے ہیں تمہارا جی جب چاہے تم انکی مدد کرسکتے ہو میں ہمیشہ تمہارے ساتھ نہیں رہونگا ۔ 8 یہ عورت جو کچھ میرے لئے کرسکتی تھی کیا ۔ مرنے سے پہلے ہی تدفین کیلئے اس نے میرے بدن پر خوُشبودار تیل کوچھڑکا ہے ۔ 9 میں بالکل سچ کہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی خوشخبری کی تعلیم دی جاتی ہے وہاں اس عورت کے کئے ہوئے کام کے متعلق کہا جائے تو لوگ ا س کو یاد ر کھیں گے ۔ ۔” 10 تب ان بارہ رسولوں میں سے ایک یہوداہ اسکریوتی جو سردار کاہن کے پاس یسوع کو حوالہ کر نے کی بات کرنے کیلئے گیا ۔ 11 سردار کاہن اس بارے میں بہت خوش ہوئے اور اس بنا ء پر اسے رقم دینے کا وعدہ کیا ۔ جس کی وجہ سے یہوداہ یسوع کو پکڑکر انکے حوالے کرنے کے لئے مناسب موقع کی تاک میں تھا ۔ 12 وہ دن بغیر خمیر کی روٹی کی تقریب کا پہلا دن تھا اور یہودیوں کے پاس فسح کی تقریب میں بھیڑوں کی قربانی کا یہی وقت تھا یسوع کے شاگرد اس کے قریب آئے اور ان سے پوچھا، “ہم آپ کے لئے فسح کی تقریب کا کھانا کہاں تیا رکریں؟” 13 یسوع نے اپنے دو شاگردوں کو بھیجا اور انہیں ہدایت دی “اور کہا کہ جب تم شہر میں داخل ہوں گے تو ایک آدمی پانی کا مٹکا اٹھاتے ہوئے نظر آئیگا تم اسکے پیچھے ہولینا ۔ لیکن پطرس نے یقین کے ساتھ جواب دیا ،”اگر مجھے تیرے ساتھ مر نا بھی پڑے تو ٹھیک ہے تب بھی میں ہر گز یہ بات نہ کہوں گا کہ میں تجھے نہیں جانتا “دوسرے شاگردوں نے بھی ایسا ہی کہا۔ 14 وہ ایک گھر میں چلا جائیگا تم اس گھر کے مالک سے کہو کہ اُستاد نے کہا ہے کہ وہ کمرہ کہاں ہے جہاں میں اپنے شاگردوں کے ساتھ فسح کا کھانا کھا سکوں۔ 15 مکان کا مالک بالا خانہ کا کمرہ دکھا ئیگا ۔ یہ کمرہ تمہارے لئے تیار ہے۔ ہمارے لئے وہاں کھانا تیار کرو۔” 16 تب شاگرد وہاں سے نکل کر شہر میں گئے یسوع کے کہنے کے مطابق ہی سب کچھ ہوا ۔ شاگردوں نے فسح کی تقریب کا کھانا تیار کیا۔ 17 شام میں یسوع اپنے بارہ رسولوں کے ساتھ اس گھر میں گئے۔ 18 ب وہ سب میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے تو یسوع نے کہا “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک میرے ساتھ فریب کریگا اور وہ اب میرے ساتھ کھانا کھا رہا ہے۔“ 19 جب یہ بات سنی تو شاگر دوں کو بہت دکھ ہوا تب ہر ایک شاگرد یسوع سے یکے بعد دیگر کہنے لگے ، “میں وہ نہیں ہوں یقین دلاتا ہوں کہ میں تیرے ساتھ کوئی دھوکہ نہ کرونگا۔” 20 یسوع نے کہا ، “ان بارہ لوگوں میں ایک میرے خلاف دشمنی کر رہا ہے ۔ وہی میرے ساتھ ایک ہی کٹورہ میں اپنی روٹی ڈبوکر بھگورہا ہے ۔ 21 ابن آدم مر ے گا جیسا کہ صحیفوں میں اس کے متعلق لکھا گیا ہے ۔ لیکن ابن آدم کو قتل کرنے کے لئے پکڑوانے والے کیلئے نہایت درد ناک ہوگا ۔ اور کہا،” اگر وہ پیدا ہی نہ ہوا ہوتا تو شاید اس کے حق میں بھلا ہوتا ۔ “ 22 جب وہ کھا نا کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اور خدا کا شکر اداکیا اُس نے روٹی توڑ کر اپنے شاگر دوں میں تقسیم کی ۔ اور یسوع نے ان سے کہا ،”اس روٹی کو اٹھا لو اور کھاؤ اور کہا کہ یہ روٹی میرا بدن ہے “۔ 23 تب یسوع نے شراب کا پیالہ لیا اور اس پر خدا کا شکر ادا کیا اور اسے اپنے شاگردوں کو دیا ۔اور تمام شاگردوں نے اسے پیا ۔ 24 یسوع نے کہا ،” یہ میرا خون ہے او ر یہ معا ہدہ کا خون ہے یہ بہت سے لو گوں کے لئے بہائے جا نے والا خون ہے۔ 25 “میں تم سے سچ کہتا ہوں ۔ میں اب اس وقت تک مئے پیوں گا جب تک خدا کی بادشاہت میں نئی مئے نہ پیوں ۔” 26 تب تمام شاگردوں نے ایک گیت گایا۔اس کے بعد وہ زیتون کی پہاڑی کی طرف روانہ ہوئے۔ 27 تب یسوع نے شاگردوں سے کہا تم سب ایمان کو کھو دوگے یہ صحیفوں میں لکھا ہے: 28 لیکن مر کر دوبارہ جی اٹھنے کے بعد تم سے پہلے ہی میں گلیل کو جا ؤں گا۔ 29 پطرس نے جواب دیا ،” دیگر تمام شاگرداپنا ایمان کھو دیں گے لیکن میں اپنا ایمان نہیں کھوؤں گا۔ 30 یسوع نے کہا ،” میں سچ کہتا ہوں ۔ آج کی رات مرغ کے دو مرتبہ بانگ دینے سے قبل ہی تو تین مرتبہ یہ کہے گا کہ تو مجھے نہیں جانتا۔” 31 32 یسوع اور ان کے شاگرد ایک مقام جس کا نام گتسینی تھا اس جگہ آے یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ،” جب تک کہ میں عبادت نہ کر لوں تم یہیں بیٹھے رہو۔” 33 وہ پطرس یعقوب ، اور یوحنا ّ کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ پھر یسوع بہت حیران اور بہت دکھی بھی ہوئے۔ 34 یسوع نے ان سے کہا،” میری جان غموں سے اتنی بھر گئی ہے کہ جو موت کے برابر ہے اور کہا کہ جاگتے ہوئے یہیں پر میرا انتظار کرو ۔” 35 یسوع ان کے ساتھ تھو ڑی دور جانے کے بعد زمین پر گرے اور دُعا کی اگر ممکن ہو سکے تو یہ مصیبت کا وقت مجھ تک نہ آنے دو ۔ “ 36 تب یسوع نے دُعا کی اے باپ ! تیرے لئے تو ہر بات ممکن ہے اور دعا کی کہ اس مصیبت کے پیا لے کو مجھ سے ہٹا دے لیکن تو جو چاہے سو کر اور میری مرضی کے مطا بق نہیں ۔ “ 37 جب یسوع اپنے شاگردوں کے پاس لوٹے تو انکو سوتے ہو ئے پایا۔ اس نے پطرس سے کہا ،” اے شمعون کیا تو سو رہا ہے ؟ کیا تیرے لئے یہ بات ممکن نہیں کہ تو میرے ساتھ ایک گھنٹے بیدار رہ سکے؟ 38 جاگتا رہ اور دعا کر تا کہ تو مشتعل نہ ہو ۔ روح تو خو ا ہش مند ہے لیکن بدن میں کافی طاقت نہیں ہے۔” 39 دوسری مرتبہ یسوع دور جاکر پہلے ہی کی طرح دعائیں کرنے لگے۔ 40 یسو ع جب اپنے شاگر دوں کے پاس دوبارہ گئے تو ان کو سوتے پایا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انکی آنکھیں بہت تھک گئیں ہیں یسوع کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا کہ وہ شاگر دوں سے کیا کہے۔ 41 تیسری مرتبہ دعا کرنے کے بعد یسوع اپنے شاگردوں کے پاس واپس آئے اور ان سے کہا ،”تم اب تک سو رہے ہو اور آرام کر رہے ہو ۔ ابن آدم کو اب گنہگاروں کے حوالے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ 42 اٹھو ! ہم کو جانا چاہئے وہ جو مجھے ان لوگوں کے حوالے کریگا اب یہاں آرہا ہے ۔ “ 43 یسوع باتیں کر ہی رہے تھے کہ یہوداہ وہاں آیا یہوداہ ان بارہ رسولوں میں سے ایک تھا ۔ یہوداہ کے ساتھ کئی لوگ تلواروں اور لاٹھیوں کو لئے ہوئے تھے ۔ سردار کاہنوں، معلّمین شریعت اور بزرگ یہودی قائدین نے ان لوگوں کو بھیجا تھا۔ 44 یسوع کون ہے لوگوں کو یہ معلوم کرانے کے لئے یہوداہ نے اشارہ کیا ۔یہوداہ نے ان لوگوں سے کہا ،” میں جس کو بوسہ دوں وہی یسوع ہے ۔ اسکو گرفتار کر کے بہت ہوشیاری اور نگرانی میں ساتھ لے جانا ۔” 45 تب یہوداہ نے یسوع کے نزدیک جاکر”اے استاد” کہا اور بوسہ دیا ۔ 46 پھر ان لوگوں نے یسوع کو گرفتار کیا اور اس کو باندھ د یا ۔ 47 یسوع کے نزدیک کھڑے ہوئے شاگردوں میں سے ایک نے اپنی تلوار کھینچ لی اور اعلٰی کاہن کے خادم کا کان کاٹ د یا۔ 48 تب یسوع نے ان سے کہا،” تم لوگ کیوں تلواروں اور لاٹھیوں کے ساتھ مجھے گرفتارکر کرنے آئے ہو ؟ کیا میں مجرم ہو ں؟ 49 اور کہا ، کہ روزانہ ہیکل میں تعلیم دینے کے لئے میں تمہارے ساتھ تھا ۔ تم نے مجھے وہاں گرفتار نہیں کیا لیکن یہ سارے واقعات جیسا صحیفوں میں لکھا ہوا ہے ایسا ہی ہوگا ۔” 50 تب یسوع کے تمام شاگرد اسکو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ 51 یسوع کو ماننے والا ایک نوجوان آدمی وہاں موجود تھا ۔ وہ سوتی کپڑے پہنے ہوئے تھا ۔ لوگوں نے اسکو بھی پکڑ لیا ۔ 52 مگر اسکے جسم سے کپڑا گر گیا اور وہ برہنہ ہی وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ 53 یسوع کو جن لوگوں نے گرفتار کیا انہوں نے ان کو اعلٰی کاہن کے گھر لے گئے ۔ تمام سردار کاہنوں اور بزرگ یہودی قائدین کے علاوہ معلّمین شریعت وہاں پر جمع تھے ۔ 54 پطرس یسوع کے پیچھے کچھ فاصلے پر چلتے ہوئے اعٰلی کاہن کے گھر کے آنگن میں داخل ہو اور محافظوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور آگ تاپ نے لگا۔ 55 سردار کا ہنوں اور صدرِ عدالت نے یسوع کے خلاف شہادت تلاش کرنی شروع کی تا کہ اس کو قتل کیا جائے۔ لیکن وہ ایسی کو ئی شہا دت پا نے سے قاصر رہے۔ 56 کئی لوگ آئے اور یسوع کے خلاف جھوٹے ثبوت دیئے۔لیکن ان لوگوں نے مختلف باتیں کہیں جو ایک دوسرے سے میل نہیں کھا رہی تھیں۔ 57 تب چند لوگوں نے جو وہاں کھڑے تھے اور یسوع کے خلاف جھوٹے ثبوت پیش کئے ۔ 58 ان لوگوں نے کہا ،” ہم نے سنا ہے کہ یہ آدمی کہہ رہا تھا کہ میں اس ہیکل کو تباہ کر دوں گاجسے انسانی ہاتھوں نے بنایا ہے اور تین دن میں دوسری ہیکل تعمیر کروں گا جسے انسانی ہاتھ نہیں بنائیگا ۔” 59 اس کے باو جود بھی ان لو گوں کی کہی ہوئی باتوں میں کوئی موافقت نہیں پائی گئی۔ 60 پھر اعلیٰ کاہن نے تمام لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر یسوع سے پوچھایہ حاضرین جو تیرے خلاف الزا مات لگا رہے ہیں کیا تو ان کے خلاف اپنی صفا ئی میں کوئی بات نہیں کہے گا؟ اور پوچھا کہ لوگ جو تیرے خلاف کہہ رہے ہیں کیا وہ سچ ہے؟ 61 لیکن یسوع با لکل خا موش رہے اس کا کوئی جواب نہ دیئے۔ اعلیٰ کا ہن نے یسوع سے دوسرا سوال کیا” کیا تو مسیح ہے؟ خدائے رحیم کا بیٹا ؟ “ 62 یسوع نے جواب دیا،”ہاں میں خدا کا بیٹا ہوں۔ اور ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کی داہنی جانب بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر سوار آتے ہوئے دیکھو گے۔” 63 اعلیٰ کاہن نے اپنے کپڑے پھاڑتے ہوئے کہا ،” ہمیں مزید گواہی کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی ! 64 تم سب نے اسے خدا کے خلاف کہتے ہوئے سنا اور پوُچھا کہ اس پر تم سب کا کیا فیصلہ ہے ؟ “سب لوگوں نے کہا ،” وہ قصور وار ہے اور اسکو ضرور موت کی سزا ہونی چاہئے ۔ 65 وہاں پر موجود چند لوگوں نے یسوع پر تھوکا اور انکا چہرا ڈھانک دیا اور مکّے مارے اور کہنے لگے،” ہمیں نبوت کی باتیں سنا” اور محافظوں نے طمانچے مار مار کر اُسے اپنے قبضہ میں لیا ۔ 66 ا ُ س وقت پطرس ابھی آنگن ہی میں تھا کہ اعلیٰ کاہن کی ایک لونڈی پطرس کے پاس آئی ۔ 67 پطرس کو جاڑوں میں آگ تاپتے ہوئے دیکھ کر اس لونڈی نے پطرس کو قریب سے دیکھا اور کہا، “تو وہی ہے جو اس ناصری یسوع کے ساتھ تھا۔” 68 لیکن پطرس نے انکار کیا اور کہا میں نہیں جانتا اور میں نہیں سمجھتا کہ تو کیا کہہ رہی ہے یہ کہتے ہوئے اٹھا اور آنگن کے باب الداخلہ ۔کے پاس گیا بہت سارے یونانی صحیفوں میں یہ شامل ہے۔ اور پرندوں کا ہجوم۔” 69 اس لڑکی نے پطرس کو دوبارہ دیکھا اور وہاں کھڑے ہوئے لوگوں سے کہا، “یہ آدمی اس کے شاگردوں میں سے ایک ہے ۔ “ 70 پطرس نے دو بارہ اس کی باتوں کا انکار کیا ۔ تھوڑی دیر بعد پطرس کے قریب کھڑے ہوئے چند آدمیوں نے اس سے کہا ، “ہم جانتے ہیں کہ تو بھی اسکے شاگردوں میں سے ایک ہے اور توبھی گلیل ہی کا ہے۔“ 71 تب پطرس اپنے آپ پر لعنت کرنا شروع کیا اور چلاّکر کہا کہ میں خدا کے لئے وعدہ کرتا ہوں یہ آدمی جس کے بارے میں تم مجھ سے کہتے ہو میں اسکو نہیں جانتا ! “ 72 پطرس نے جب یہ کہا مرغ نے دوسری مرتبہ بانگ دیا تب پطرس نے یاد کیا کہ یسوع نے کیا کہا تھا ۔” مرغ کے دو بار بانگ دینے سے پہلے تو تین بار کہے گا کہ تو مجھے نہیں جانتا ہے” ۔ یسوع کی کہی ہوئی بات یاد کرکے وہ دکھ میں مبتلا ہوا اور رونے لگا ۔ 1 صبح سویرے سردار کاہنوں ، بڑے یہودی قائدین ، معلّمین شریعت اور صدر عدالت کے افراد نے اجلاس بلایا اور یہ طے کیا کہ یسوع کو کیا کر نا چاہئے ۔ وہ یسوع کو 2 پیلاطس نے یسوع سے پوچھا ، “کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے “؟ یسوع نے جواب دیا ، “ہاں تو نے جو کہا ہے وہ ٹھیک ہے “۔ 3 سردار کاہنوں نے یسوع پر کئی الزامات لگائے ۔ 4 تب پیلاطس نے یسوع سے پوچھا ، “یہ لوگ تجھ پر کئی الزامات لگا رہے ہیں تو چپ ہے کوئی جواب نہیں دیتا “؟ 5 اس کے باوجود یسوع بالکل خاموش رہے اور اسکی خاموشی کو دیکھکر پیلاطس کو بڑی حیرت ہوئی ۔ 6 ہر سال فسح کی تقریب کے موقع پر گور نر کے حکم کی تعمیل میں قید خانہ سے ایک قیدی رہائی پاتا تھا ۔ 7 اس وقت برابّا نامی ایک قیدی قبائلیوں کے ساتھ قید خانے میں تھا یہ سب جھگڑالو ایک جھگڑے کے وقت قتل کے الزام میں گرفتار تھے۔ 8 لوگ پیلاطس کے پاس آئے اور ہمیشہ کی طرح اپنے لئے ایک قیدی کی رہائی کی مانگ کر نے لگے ۔ 9 پیلاطس نے لوگوں سے پو چھا کہ “کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تمہارے لئے یہودیوں کے بادشاہ کی رہائی ہو ؟ ۔” 10 سردار کاہنوں کے حسد اور جلن سے یسوع کو قید کرکے اسکے حوالے کئے جانے کی بات پیلاطس کو معلوم تھی ۔ 11 سردار کاہنوں نے لوگوں کو اکسایا کہ وہ پیلاطس سے برابّا کی رہائی کی گزارش کریں یسوع کے لئے نہیں۔ 12 پیلاطس نے لوگوں سے دوبارہ پوچھا ، “یہودیوں کے بادشاہ کے نا م سے تم جس آدمی کو پکارتے ہو اس کو میں کیا کروں” ؟ 13 لوگوں نے دوبارہ شور مچایا اور کہنے لگے ، “اسے مصلوب کرو ۔ “ 14 پیلاطس نے پوچھا ، “کیوں؟ اور ا س کا جرم کیا ہے”؟ اس پر لوگوں نے ہنگامہ مچایا اور کہا ،” اسکو صلیب پر چڑھا ؤ “۔ 15 پیلاطس لوگوں کو خوش کر نے کے لئے برابّا نامی آدمی کو رہا کر دیا ۔ اور درّے مار کر صلیب دینے کیلئے یسوع کو سپاہیوں کے حوالے کیا۔ 16 پیلاطس کے سپاہی یسوع کو گور نر کے محل کے آنگن میں لے گئے جو پر یتورین کہلاتا تھا اور انہوں نے دیگر تمام سپاہیوں کو ایک ساتھ بلایا ۔ 17 سپاہیوں نے یسوع کے اوپر ارغوانی رنگ کا چوغہ پہنا کر اور کانٹوں کا ایک تاج بناکر اس کے سر پر رکھا۔ 18 تب انہوں نے یسوع کو سلام کرنا شروع کیا اور کہا ،” اے یہودیوں کے بادشاہ ہم تم کو سلام کر تے ہیں !۔ “ 19 سپاہی اس کے سر پر چھڑی سے مارتے اور ان پر تھوکتے اور یسوع کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے اسکی عبادت مذاق کے طور پر کر رہے تھے ۔ 20 جب سپاہیوں نے اس کا مذاق اڑا نا ختم کیا تو انہوں نے ارغوانی چغے کو نکال دیا ۔ اور اسی کے کپڑوں کو دوبارہ پہنایا پھر وہ یسوع کو صلیب پر چڑھا نے کیلئے ساتھ لے گئے 21 تب کرینی شہر کا ایک آدمی جس کا نام شمعون تھا وہ کھیت سے آرہا تھا۔ وہ سکندر اور روفی کا باپ تھا ۔ سپا ہی یسوع کی صلیب اٹھا ئے لے جا نے کے لئے شمعون سے زبر دستی کر نے لگے ۔ 22 اور وہ یسوع کو گلگتّا نام کی جگہ پر لائے۔گلگتّا کی معنی “کھوپڑی کی جگہ” 23 گلگتسا میں سپاہیوں نے یسوع کو پینے کے لئے پیالہ دیا یہ مرُ ملی ہوئی مئے تھی۔لیکن یسوع نے اس کو نہ پیا۔ 24 سپا ہیوں نے یسوع کو صلیب پر لٹکا دیا اور میخیں ٹھونک دیں۔پھر یہودیوں نے قرعہ ڈالکر یسوع کے کپڑوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ 25 وہ جب یسوع کو صلیب پر چڑھائے تو صبح کے نو بجے کا وقت تھا۔ 26 یسوع کے خلاف جو الزام تھا وہ یہ کہ یہودیوں کا بادشاہ یہ صحیفہ صلیب پر لکھوائی گئی تھی۔ 27 اس کے علاوہ انہوں نے یسوع کے ساتھ دو ڈاکوؤں کو بھی صلیب پر لٹکا دیا تھا ۔ انہوں نے ایک ڈاکو کو یسوع کی داہنی جانب اور دوسرے کو بائیں جانب لٹکا دیاتھا۔ 28 چند یونانی نسخوں میں اس آیت کو شامل کئے ہیں“وہ مجرموں میں رکھا گیا ہے” شریعت کا ہی آیت اس طرح پورا ہوا۔” 29 وہاں سے گزرنے والے لوگ اپنے سروں کو ہلا تے ہوئے یسوع کی بے عزتی کرتے اور کہتے تو “ہیکل کو منہدم کر کے اس کو پھر تین دنوں میں دوبارہ تعمیر کر نے کی بات بتائی ہے ۔ 30 اب تو صلیب سے اتر کر نیچے آجا اور اپنے آپ کی حفاظت کر “۔ 31 وہاں پر موجود سردار کاہنوں اور معلّمین شریعت نے بھی مذاق اڑا کر کہنے لگے کہ “اس نے دیگر لوگوں کی حفاظت کی مگر اب اپنے آپ کی حفاظت نہ کرسکا۔ 32 اگر وہ حقیقت میں اسرائیل کا بادشاہ مسیح ہے تو اب صلیب سے اتر کر نیچے آئے اور اپنے آپ کی حفاظت کرے تو اس وقت ہم اس پر ایمان لائینگے “اس طرح وہ طعنہ دینے لگے ۔ یسوع کے بغل ہی میں دو ڈاکو کو صلیب پر چڑھا ئے گئے تھے ان لوگوں نے بھی اس کا مذاق اڑانے لگے۔ 33 دوپہر کا وقت تھا سارا ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا یہ اندھیرا دوپہر تین بجے تک تھا ۔ 34 تین بجے یسوع نے بلند آواز سے پکارا ایلوہی ایلوہی لمّا سبقتنی جس کے معنٰی ”میرے خدا ! میرے خدا ! تو نے میرا ساتھ کیوں چھوڑ دیا؟“ 35 وہاں پر کھڑے ہوئے چند لوگوں نے اس کو سُنا اور دیکھا “اور کہے کہ وہ ایلیاہ کو پکارتا ہے ۔” 36 وہاں سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور اسپنج لیا اور اسکو سر کہ میں ڈبویا اور اس کو ایک لاٹھی سے باندھکر یسوع کو چسایا اور کہنے لگا ذرا ٹھہرو ،” میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا ایلیاہ اسکو صلیب سے نیچے اتار نے کے لئے آتا ہے یا نہیں ۔ “ 37 تب یسوع زور سے چیخے اور انتقال ہوگئے۔ 38 اس وقت ہیکل کا پردہ اوپر سے نیچے تک دو حصّوں میں پھٹ گیا ۔ 39 صلیب کے سامنے کھڑا ہوا رومی فوجی عہدیدار جو یسوع کے دم توڑتے ہوئے منظر کو دیکھ رہا تھا اور کہا ،” کہ یہ آدمی تو حقیقت میں خدا کا بیٹا ہی ہے ۔” 40 وہاں چند عورتیں صلیب سے دور کے فاصلہ پر کھڑی ہوکر یہ سارا واقعہ دیکھ رہی تھیں ان چند عورتوں میں مریم مگدینی ،سلومے اور مریم یعقوب اور یسوع کی ماں ( یعقوب اسکا چھوٹا بیٹا شامل تھا ) تھیں ۔ 41 یہ عورتیں گلیل میں یسوع کے ساتھ رہتی تھیں اور اسکی خدمت میں تھیں اور دوسری کئی عورتیں بھی تھیں جو یسوع کے ساتھ یروشلم کو آئیں تھیں 42 تب اندھیرا چھا نے لگا وہ تیاری کا دن تھا یعنی سبت سے پہلے کا دن ۔ 43 ارمیتہ گاؤں کا رہنے والا یوسف پیلاطس کے پاس گیا جرآ ت کرتے ہوئے یسوع کی لاش خود لے جانے کی درخواست کی جب کہ یوسف یہودی تنظیم میں ایک اہم رکن تھا خدا کی بادشاہت کی آرزو کر نے والوں میں سے یہ بھی ایک تھا۔ 44 یسوع اس قدر جلد انتقال کر جانے پر پیلا طس کو حیرت ہوئی یسوع کی نگرانی پر متعین ایک سپاہی عہدیدار کو پیلاطس نے بلایا اور پوچھا ،” کیا یسوع انتقال ہوگئے ؟ 45 اس عہدیدار نے کہا ،” ہاں وہ انتقال ہوگئے “اس طرح پیلاطس نے یو سف سے کہا وہ لاش کو لے جا سکتا ہے ۔ 46 یو سف نے سوت کا موٹا کپڑا لا یا اور صلیب سے لاش اتار کر اس کو اس کپڑے میں لپیٹ دیا ۔ پھر اسکے بعد چٹان والی قبر میں اسکو اتارا اور اس قبر میں پڑے پتّھرکو لڑھکا کر اس کو بند کردیا ۔ 47 مریم مگدینی اور یو سیس کی ماں مریم جگہ کی نشاندہی کر لی تھی کہ یسوع کی لاش کس جگہ رکھی گئی ہے؟ 1 سبت کے دوسرے دن مریم مگدینی سلومے اور یعقوب کی ماں مریم یہ چاہتی تھیں کہ چند خوشبودار چیزیں یسوع کی لاش کو لگا ئیں ۔ 2 ہفتہ کا پہلا دن تھا صبح کے وقت وہ قبر کی جگہ چلی گئیں ۔ اس وقت حالانکہ سورج طلاع ہو رہا تھا پھر بھی تاریکی تھی ۔ 3 یہ عورتیں آپس میں باتیں کر تے ہوئے کہنے لگیں کہ “پتھّر کی بڑی چٹان کے ذریعے قبر کے منھ کو بند کر دیا گیا ہے اور کہا کہ یہ چٹان ہمارے لئے کون لڑھکائینگے؟۔ 4 جب وہ عورتیں قبر پر پہونچی تو انہوں نے دیکھا کہ وہ چٹان لڑھکی ہوئی ہے جب کہ وہ چٹاّن بہت بڑی تھی ۔ لیکن اس کو قبر کے منھ سے دور لڑھکا یا گیا تھا ۔ 5 وہ عورتیں جب قبر میں اتریں تو کیا دیکھتی ہیں کہ سفید چوغہ پہنا ہوا ایک نوجوان قبر کی داہنی جانب بیٹھا ہوا ہے اس کو دیکھ کر یہ گھبرا گئیں۔ 6 لیکن اس نے کہا ،” گھبراؤ مت ! صلیب پر چڑھا یا ہوا جس ناصری یسوع کو تم ڈھونڈ رہی ہو دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں اور وہ یہاں نہیں ہے دیکھو انکی لاش جس جگہ رکھی گئی تھی وہ یہی ہے ۔ 7 اب جاؤ یسوع کے شاگر دوں میں منادی کرو ۔ بطور خاص پطرس کو یہ بات معلوم کراؤ اور تم ان سے کہنا کہ یسوع گلیل کو جا رہے ہیں اور وہ تم سے قبل وہاں رہیں گے۔ اس نے تم سے پہلے ہی کہا ہے کہ تم اس کو وہاں دیکھو گے ۔” 8 وہ عورتیں ڈرکے مارے بدحواس ہو گئیں اور کانپ رہی تھیں اور قبر چھوڑ کر بھاگ گئیں ۔ چونکہ وہ بہت زیادہ خوف زدہ تھیں اس لئے وہ اس واقعہ کو کسی سے نہیں کہا۔ 9 ہفتہ کے پہلے دن کی صبح ہی یسوع دوبارہ جی اٹھے ۔ یسوع پہلے پہل مریم مگدینی کو نظر آئے ۔ پچھلے دنوں کبھی یسوع نے مریم مگدینی پر سے سات بد روحوں کو نکال باہر کئے تھے ۔ 10 مریم گئی اور انکے شاگر دوں کو معلوم کرایا ۔ لیکن وہ اب تک غم میں ڈوبے ہوئے ماتم کر رہے تھے۔ 11 جب مریم نے شاگردوں کو یہ معلوم کرا یا کہ میں نے یسوع کو زندہ دیکھا تو شاگر دوں نے اس کی بات پر بھروسا نہ کیا۔ 12 ایک دفعہ ایسا ہوا کہ یسوع کے دو شاگرد جب ایک گاؤں سے گرر رہے تھے تو یسوع ان کو ایک دوسری ہی شکل میں دکھا ئی دیا ۔ 13 یہ شاگرد دوسرے اور شاگر دوں کے پاس واپس لوٹے اور ان کو یہ واقعہ سنا یا لیکن انہوں نے انکی بات پر یقین نہ کیا ۔ 14 جب گیارہ شاگرد کھانا کھا رہے تھے یسوع ان کو نظر آئے ، شاگر دوں میں چونکہ ایمان کم تھا جس کی وجہ سے یسوع نے انکی مخالفت کی وہ ضدّی تھے اور لوگوں کی اس بات پر یقین کر نے سے انکار کردیا کہ یسوع مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھا ہے ۔ 15 پھر یسوع نے تمام شاگر دوں سے کہا ،” جاؤ اور ساری زمین میں پھیل جاؤ اور ہر ایک کو خوشخبری سناؤ۔ 16 وہ جو ایمان لائے اور وہ جو بپتسمہ لے نجات پائیگا اور جو ایمان نہ لائے وہ مجرم کے زمرے میں شا مل ہوگا ۔ 17 ایما ن رکھنے والے معجزے دکھا ئیں گے ۔اور وہ میرے نام کا واسطہ دیکر بد روحوں سے چھٹکارہ دلائیں گے ۔اور وہ زبان جس کو وہ جانتے ہی نہیں اس میں وہ باتیں کریں گے ۔ 18 اگر یہ سانپوں کو پکڑ بھی لیں تو ان کو ڈسینگے نہیں ۔اگر یہ زہر بھی پی لیں تو ان پر اسکا کوئی اثر بھی نہ ہوگا اور کہا،” دست شفقت رکھیں گے تو بیمار بھی صحتیاب ہو جائیں گے ۔” 19 خداوند یسوع ان واقعات کو اپنے شاگردوں سے بیان کیا اور پھر اسکے بعد انکو آسمان میں اٹھا لیا گیا ۔ اور وہ وہاں پر خُدا کی داہنی جانب بیٹھ گئے ۔ 20 شاگردوں نے روئے زمین میں ہر طرف پھیل کر لوگوں میں اس خوشخبری کی منا دی کر دی اور خدا وند نے ان لو گوں کی مدد کی۔ اور مختلف معجزوں کے ذریعے اس خٰوشخبری کی بات کو مستحکم کر تے رہے۔
|