1 دُنیا کی ابتدا ء سے پہلے کلام وہاں تھا کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا ۔ 2 وہ 3 سب چیزیں اس کے ذریعے پیدا ہو ئیں ۔ اس کے بغیر کو ئی چیز نہیں بنی ۔ 4 اُ س میں حیات تھی اور وہ زندگی دُنیا کے لوگوں کے لئے نوُر تھی ۔ 5 نوُر تاریکی میں چمکتا ہے لیکن تاریکی اس نور پر کبھی قابو نہ پا سکی۔ 6 یوحنّا نامی ایک آدمی تھا اس کو خدا نے بھیجا تھا۔ 7 یوحناّ لوگوں سے اس نوُر کے متعلق کہنے آیا تا کہ یوحناّ کے ذریعہ لوگ نوُر کے متعلق جان سکیں اور مان سکیں ۔ 8 یوحناّ خوُد نوُرنہ تھا لیکن وہ لوگوں کو نوُر کے متعلق بتا نے آیا ۔ 9 سچاّ حقیقی نور دُنیا میں آرہا تھا ۔یہ نور جس نے تمام لوگوں کو روشنی دی ۔ 10 وہ دُنیا میں پہلے ہی سے مو جود تھا دُنیا اسی کے وسیلے سے پیدا ہو ئی لیکن دُنیا کے لو گوں نے اسے نہیں پہچا نا ۔ 11 وہ اپنی دُنیا میں آیا لیکن اس کے اپنے لوگوں نے اسے قبول نہ کیا۔ 12 کچھ لو گوں نے اسے قبول کیا جنہوں نے قبول کیا وہ ایمان لا ئے اورجو ایمان لا ئے ان کو کچھ عطا کیا گیا اس نے ان کو خدا کی اولا د ہو نے کا حق دیا۔ 13 یہ بّچے اس طرح نہیں پیدا ہو ئے جس طرح عام بّچے پیدا ہو تے ہیں۔ وہ اس طرح نہیں پیدا ہوئے جیسا کہ کسی ماں باپ کی تمنایا خوا ہش سے پیدا ہو تے ہیں۔ ا ن بچوں کو خدا نے خود پیدا کیا۔ 14 کلا م نے انسان کی شکل لیا اور ہم لوگوں میں رہا ۔ ہم نے اس کا جلا ل دیکھا۔ جیسا کہ با پ کے اکلوتے بیٹے کا جلا ل۔ کلا م سچا ئی اور فضل سے بھر پور تھا۔ 15 یوحناّ نے اپنے بارے میں لوگوں سے کہا ۔ یوحناّ نے واضح کیا کہ “یہ وہی ہے جس کے متعلق میں بات کر رہا تھا وہ جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے زیادہ عظیم ہے اسلئے کہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔” 16 کلام سچا ئی اور فضل سے بھر پور تھا اور ہم تمام نے اُس سے زیادہ سے زیادہ فضل پایا۔ 17 شریعت تو موسیٰ کے ذر یعہ دی گئی لیکن فضل اور سچا ئی یسوع مسیح کے ذریعہ ملی۔ 18 کسی نے کبھی بھی خدا کو نہیں دیکھا لیکن اکلوتا بیٹا خدا ہے وہ باپ سے قریب ہے اور بیٹے نے ہمیں بتا یا کہ خدا کیسا ہے ۔ 19 یروشلم کے یہودیوں نے چند کا ہنوں اور لا وی کو یوحناّکے پاس بھیجا یہ پوچھنے کے لئے کہ “وہ کون ہے ؟ ” 20 یوحناّ نے کھلے طور پر کہا اور اقرا ر کیا “میں مسیح نہیں ہوں۔ ” 21 یہودیوں نے یوحناّ سے پوچھا، “پھر تم کو ن ہو ؟ کیاتم ایلیاہ ہو ؟ ” یوحناّ نے جواب دیا، “میں ایلیاہ نہیں ہوں۔” پھر یہودیوں نے پوچھا، “کیا تم نبی ہو؟” یوحنا نے کہا، “نہیں میں نبی نہیں ہوں۔” 22 تب یہود یوں نے پوچھا ، “پھر تم کون ہو؟ اپنے بارے میں بتا ؤ ” اور کہو تا کہ انہیں جواب دے سکیں۔ جس نے ہمیں بھیجا ہے ۔ تم اپنے بارے میں کیا کہتے ہو ۔ 23 یوحناّ نے یسعیاہ نبی کے الفا ظ کہے، 24 یہ یہودی فریسیوں کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ 25 ان لوگوں نے یوحناّ سے پوچھا ، “تم کہتے ہو کہ تم مسیح نہیں ہو اور یہ بھی کہتے ہو کہ تم ایلیاہ نہیں ہو اور نبی بھی نہیں پھر تم بپتسمہ لوگوں کو کیوں دیتے ہو؟” 26 یوحناّ نے جواب دیا، “میں لوگوں کو پانی سے پبتسمہ دیتا ہوں لیکن تم میں ایک آدمی ہے جسے تم نہیں پہچانتے ۔” 27 وہ آدمی میرے بعد آ ئے گا میں تو اس کی جو تیوں کے تسمے کھو لنے کے بھی قابل نہیں ہوں۔ 28 یہ سب کچھ دریائے یردن کے پار بیت عنیاہ کے علا قے میں ہوا جہاں یوحناّ لوگوں کو بپتسمہ دے رہا تھا۔ 29 دوسرے دن یوحناّ نے دیکھا کہ یسوع اسکی طرف آ رہے ہیں۔یوحناّ نے کہادیکھو یہ خدا کا میمنہ ہے یہ دنیا سے گنا ہوں کو لے جا نے آیا ہے۔ 30 یہ وہی آدمی ہے جس کی بات میں تم سے کہہ رہا تھا کہ ایک شخص میرے بعد آئے گا اور وہ مجھ سے عظیم ہو گا کیوں کہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔ اور وہاں ہمیشہ سے رہا تھا ۔ 31 حتیٰ کہ میں اسے جانتا نہ تھاوہ کون تھا لیکن میں لوگوں کو پا نی سے بپتسمہ دینے کیلئے آیا۔اسطرح اسرائیلی جان سکتے ہیں کہ یسوع ہی مسیح ہیں۔” 32 یوحناّ نے کہا، “میں یہ بھی نہیں جانتا کہ مسیح کو ن ہے” لیکن خدا نے مجھے پانی سے بپتسمہ دینے کے لئے بھیجا اور خدا نے مجھ سے کہا کہ روح ایک آدمی پر نازل ہو گی اور وہ وہی آدمی ہو گا جو لوگوں کو مقدس روح سے بپتسمہ دیگا” یوحناّ نے کہا، “میں نے دیکھا کہ وہ روح آسمان سے نیچے آئی وہ روح ایک کبوتر کی مانند تھی اور اس پر بیٹھ گئی” 33 34 اسی لئے میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ“وہ خدا کا بیٹا ہے ۔” 35 دُوسرے دن یوحناّ دوبارہ وہاں اپنے دو شاگردوں کے ساتھ تھے ۔ 36 جب یو حنا نے دیکھا کہ یسوع وہاں آرہے ہیں تو اس نے کہا ،“خدا کے میمنہ کو دیکھو ۔” 37 جب ان دونوں شاگردوں نے یوحنا کو یہ کہتے ہوئے سنا تو یسوع کے پیچھے ہو لئے ۔ 38 جب یسوع نے پلٹ کر دیکھا کہ دونوں اسکی تقلید کر رہے ہیں تو یسوع نے پو چھا، “تم کیا چاہتے ہو ؟” دونوں نے کہا، “اے ربّی یعنی استاد آپ کہاں ٹھہرے ہیں ؟” 39 یسوع نے جواب دیا، “تم میرے ساتھ آؤ اور دیکھو ” تب دونوں یسوع کے ساتھ گئے اور اس جگہ کو دیکھا جہاں یسوع ٹھہرے تھے ۔ اور اس دن وہ یسوع کے ساتھ ٹھہرے یہ تقریباً چار بجے کا وقت تھا۔ 40 وہ دونوں آدمی یسوع کے متعلق یوحنا سے سن کر یسوع کے ساتھ ہو گئے ان دونوں میں سے ایک آدمی جس کا نام اندر یاس جو شمعون پطرس کا بھا ئی تھا ۔ 41 اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ اپنے بھا ئی شمعون کی تلاش میں نکلا اور اس سے کہا، “ہم نے مسیحا ( جس کے معنی مسیح ) کو پا لیا۔” 42 پھر اندر یاس نے شمعون کو یسوع کے پاس لا یا یسوع نے شمعون کو دیکھا اور کہا،“کیا تم یو حنا کے بیٹے شمعون ہو ؟ تم کیفا یعنی پطرس کہلاؤ گے۔” 43 دوسرے دن یسوع نے طے کیا کہ گلیل جائے اور وہ فلپ سے مل کر کہا، “میرے ساتھ ہو لے” 44 فلپ کا تعلق شہر بیت صیدا سے تھا یہ شہر اندریاس اور پطرس کا بھی تھا ۔ 45 فلپ نے نتن ایل سے مل کر کہا، “یاد کرو کہ شریعت میں موسٰی نے کیا لکھا تھا موسیٰ نے لکھا تھا کہ ایک شخص آنے والا ہے ۔ اور دوسرے نبیوں نے بھی اس کے متعلق لکھا تھا ہم نے اسکو پا لیا اس کا نام یسوع ہے جو یوسف کا بیٹا ہے اور وہ ناصری ہے ۔” 46 لیکن نتن ایل نے فلپ سے کہا ،“ناصرت ! کیا کو ئی اچھی چیز ناصرت سے آ سکتی ہے ؟” فلپ نے جواب دیا، “آؤ اور دیکھو ۔” 47 یسوع نے دیکھا نتن ایل اسکی طرف آرہا ہے تو کہا، “یہ شخص جو آرہا ہے حقیقت میں اسرائیلی ہے اس میں کو ئی خامی نہیں ہے”۔ 48 نتن ایل نے پوچھا،“تم مجھے کیسے جانتے ہو ؟” یسوع نے جواب دیا، “میں نے تمہیں اس وقت دیکھا جب تم انجیر کے درخت کے نیچے تھے جبکہ فلپ نے تمہیں میرے متعلق بتا یا تھا ۔” 49 تب نتن ایل نے یسوع سے کہا،“اے استاد آپ خدا کے بیٹے ہیں آپ اسرائیل کے بادشاہ ہیں۔” 50 یسوع نے نتن ایل سے کہا، “میں نے تم سے کہا تھا کہ میں نے تمہیں انجیر کے درخت کے نیچے دیکھا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ تم مجھ پر یقین رکھتے ہو ۔ لیکن ! تم اس سے بھی زیادہ عظیم چیزیں دیکھو گے ۔” 51 یسوع نے مزید کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں تم سب کو ئی دیکھو گے کہ آسمان کھلا ہے اور خدا کے فرشتے اوپر جا رہے ہیں اور ابن آدم پر نیچے آرہے ہیں ۔” 52 1 دو دن بعد گلیل میں شہر قانا میں ایک شادی ہو ئی جہاں یسوع کی ماں تھی ۔ 2 یسوع اور اسکے ساتھی بھی شادی میں مدعو کئے گئے تھے۔ 3 شادی کی تقریب میں جب مئے ختم ہو گئی تب یسوع کی ماں نے کہا ، “ان کے پاس مزید مئے نہیں ہے ۔” 4 یسوع نے اس سے کہا، “اے عورت تم یہ نہ کہو کہ مجھے کیا کر نا ہے ؟ میرا وقت ابھی نہیں آیا ہے ۔” 5 یسوع کی ماں نے نوکروں سے کہا ، “تم وہی کرو جو یسوع کرنے کو کہے ۔” 6 اس جگہ چھ پتھر کے بڑے مٹکے رکھے تھے جنہیں یہودی صفائی طہارت کے لئے استعمال کرتے تھے ہر مٹکے میں ۲۰یا ۳۰ گیلن پا نی کی گنجا ئش تھی۔ 7 یسوع نے خدمت گزا روں سے کہا ، “ا ن برتنوں کو پا نی سے بھر دو اور خدمت گاروں نے برتنوں کو پا نی سے لبریز کر دیا۔ 8 یسو ع نے ان خدمت گاروں سے کہا، “اس میں سے تھو ڑا پا نی نکالو اور اس کو دعوت کے میر کے پاس لے جاؤ ۔” چنانچہ خدمت گاروں نے پانی کو دعوت کے میر کے پاس پیش کیا۔ 9 اور جب دعوت کے میر نے اس کا مزہ چکھا تو معلوم ہوا کہ پا نی مئے میں تبدیل ہو گیا تھا ان لوگوں نے یہ نہیں جانا کہ مئے کہاں سے آئی لیکن خدمت گار جو پا نی لائے تھے انہیں معلوم تھا کہ مئے کیسے آئی ۔ دعوت کے میر نے دولہا کو طلب کیا ۔ 10 اور دولہا سے کہا ، “لوگ ہمیشہ پہلے بہترین مئے سے تواضع کرتے ہیں اور جب پی کر سیر ہو جا تے ہیں تب ناقص مئے دیتے ہیں لیکن تم نے عمدہ مئے اب تک بچا رکھی ہے۔” 11 یہ پہلا معجزہ تھا جو یسوع نے کیا ۔ اس معجزے کو اس نے گلیل کے شہر قا نا میں کیا اور اسطرح اپنی عظمت کو دکھا یا اور اسکے ساتھی ایمان لا ئے۔ 12 تب یسوع اپنی ماں بھائیوں اور شاگردوں کے ساتھ کفر نحوم کو گیا اور وہاں کچھ دن ٹھہرا ۔ 13 یہودیوں کی فسح قریب تھی چنانچہ یسوع یروشلم گئے۔ 14 یسوع یروشلم میں ہیکل گئے وہاں اس نے دیکھا کہ لوگ وہاں مویشی بھیڑ کبوتر فروخت کر رہے ہیں۔ اور دوسرے لوگ میز پر بیٹھے ہو ئے پیسوں کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ 15 یسوع نے رسّیوں سے کو ڑا تیار کیا اور لوگوں کو ڈرا کر انہیں اور تمام مویشی بھیڑوں اور کبوتروں کو ہیکل کے باہر کر دیئے اور میز پر بیٹھے لوگوں کے پاس جا کر ان کی میز کو الٹ دیئے اور با ہر کر دیئے اور انکی رقم کو پھیلا دیئے ۔ 16 تب یسوع نے ان لوگوں سے کہا جو کبوتر فروخت کر رہے تھے ، “یہ سب کچھ لیکر یہاں سے نکل جاؤ ۔ میرے باپ کے گھر کو تجارت کی جگہ نہ بناؤ۔” 17 جب یہ واقعہ پیش آیا تب یسوع کے شاگردوں نے یاد کیا کہ صحیفوں میں جو لکھا ہے : 18 یہودیوں نے یسوع سے کہا، “ہم کو کونسا ایسا معجزہ دکھا ؤ گے جو یہ ثابت کرے کہ تم ایسا کر نے کا حق رکھتے ہو۔” 19 یسوع نے جواب دیا، “اس ہیکل کو تباہ کر دو میں اسکو پھر تین دن میں بنادونگا۔” 20 یہودیوں نے کہا، “لوگوں نے اس ہیکل کو بنانے میں ۴۶ سال لگا ئے ہیں کیا تمہیں یقین ہے کہ دوبارہ اسکو تین دن میں بناؤ گے ؟” 21 لیکن ہیکل کہنے سے یسوع کی مراد اپنا بدن تھا ۔ 22 جب وہ مردوں میں سے زندہ ہوا تب اسکے شاگردوں کو یاد آیا کہ اس نے ایسا کہا تھا اور انہوں نے صحیفے پر اور یسوع کے قول پر ایمان لایا۔ 23 جب یسوع فسح کی تقریب پر یروشلم میں تھے کئی لوگوں نے اُس کے معجزوں کو دیکھ کر یسوع پر ایمان لا ئے۔ 24 لیکن یسوع نے ان پر بھروسہ نہیں کیا کیوں کہ یسوع کو وہ تمام لوگ معلوم تھے۔ 25 یسوع یہ ضروری نہیں سمجھا کہ کوئی اسے لوگوں کے بارے میں بتا ئے اس لئے کہ اسے معلوم تھا کہ ان لوگوں کے دماغوں میں کیا ہے ۔ 1 فریسیوں میں سے نیکو دیمس نامی ایک شخص تھا۔ وہ یہودیوں کا ایک اہم سر براہ تھا۔ 2 ایک رات نیکو دیمس یسوع کے پا س آیا اور کہا، “اے استاد ! ہم جانتے ہیں کہ تم استاد ہو جو خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہو۔ کو ئی اور آدمی ان معجزوں کو بغیر خدا کی مدد کے نہیں دکھا سکتا ۔” 3 یسوع نے جواب دیا ،“میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ آدمی کو دوبا رہ پیدا ہو نا چاہئے اگر وہ دوبارہ نہیں پیدا ہوتا تو وہ خدا کی بادشاہت میں نہیں رہ سکتا ہے۔” 4 نیکو دیمس نے کہا، “لیکن ایک آدمی جو پہلے ہی بو ڑھا ہے وہ کس طرح پیدا ہو سکتا ہے ۔ آدمی دوبارہ اپنی ماں کے جسم میں دا خل نہیں ہو سکتا اسی لئے کو ئی آدمی دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا۔” 5 لیکن یسوع نے کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ آدمی کو پا نی اور روح سے پیدا ہو نا چاہئے اگر آدمی پانی اور روح سے پیدا نہیں ہو تا ہے ۔ تو خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ 6 ایک آدمی کا جسم اسکے والدین کے ذریعے پیدا ہو تا ہے لیکن ایک آدمی کی روحا نی زندگی صرف روح سے پیدا ہو تی ہے ۔ 7 میرے کہنے سے حیران مت ہو تم کو دوبارہ پیدا ہو نا چاہئے۔ 8 ہوا کا جھونکا کہیں سے بھی چل سکتاہے تم ہوا کے جھو نکے کو سن سکتے ہو لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہوا آئی کہاں سے اور کہاں جائیگی یہی ہر اس آدمی کے ساتھ ہو تا ہے جو روح سے پیدا ہو تا ہے ۔” 9 نیکو دیمس نے پوچھا، “یہ سب کس طرح ممکن ہے۔” 10 یسوع نے کہا، “اگر چہ کہ تم ایک یہودیوں کے اہم استاد ہو پھر بھی تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ 11 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ہم جو کچھ جا نتے ہیں اس کے متعلق بات کر تے ہیں ہم وہی کہتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں لیکن تم لوگ یہ نہیں قبول کر تے جو ہم تم سے کہتے ہیں۔ 12 میں تم سے ان چیزوں کے متعلق جو زمین پر ہیں کہہ چکا ہوں لیکن تم مجھ پر یقین نہیں کر تے ہو تو پھر تم کس طرح اس بات کا یقین کرو گے اگر میں تمہیں آسمانی باتوں کے متعلق بتا ؤں۔ 13 کو ئی بھی آسمان تک نہیں گیا سوا ئے اس کے جو آسمان سے آیا یعنی ابن آدم۔ 14 “موسیٰ نے صحرا سے سانپ اٹھا لیا اسی طرح ابن آدم کو بھی اٹھا لیا جائے گا۔ 15 اسلئے وہ آدمی جو ابن آد م پر ایمان لا تا ہے وہ دائمی زندگی پاتا ہے۔” 16 ہاں! خدا نے دنیا سے محبت رکھی ہے اسی لئے اس نے اسکو اپنا بیٹا دیاہے ۔ خدا نے اپنا بیٹا دیا تا کہ ہر آدمی جو اس پر ایمان لا ئے جو کھوتا نہیں مگر ہمیشہ کی زندگی پاتا ہے ۔ 17 خدا نے اپنا بیٹا دنیا میں اسلئے بھیجا کہ وہ قصور واروں کا فیصلہ کرے بلکہ خدا نے اپنا بیٹا اس لئے بھیجا کہ اس کے ذریعہ دنیا کی نجات ہو ۔ 18 جو شخص خدا کے بیٹے پر ایمان لا تا ہے اس پر سزا کا حکم نہیں ہوگا لیکن جو اس پر ایمان نہیں لا تا اس کی پرسش ہو گی اس لئے کہ وہ خدا کے بیٹے پر ایمان نہیں لایا۔ 19 لوگوں کی عدالت اس طرح ہو گی کہ نور دُنیا میں آیا لیکن انسان نیکی کی طرف نہیں آیا وہ گناہ کی طرف ما ئل ہوا۔کیوں کہ وہ بری حرکتیں کرتا ہے۔ 20 ہر آدمی جو بری چیز کر تا ہے وہ نیکی نہیں کرتا اور نیکی کی طرف نہیں آتا کیوں کہ نیکی کی طرف آنے سے اس کی برائیاں ظا ہر ہو تی ہیں۔ 21 لیکن جو شخص سچا راستہ اختیار کر تا ہے نور کی طرف بڑھتا ہے وہ جانتا ہے کہ نیک کام وہ جو کرتا ہے خدا کی طرف سے ہے۔ 22 اس کے بعد یسوع اور اس کے ساتھی یہوداہ علا قہ کی طرف روانہ ہو ئے وہاں یسوع نے قیام کر کے لوگوں کو بپتسمہ دیا۔ 23 یوحناّ نے بھی لوگوں کو عنین میں پبتسمہ دیا۔عنین سالم کے قریب ہے ۔ یوحناّ نے وہاں کے لوگوں کو بپتسمہ دیا کیوں کہ وہاں پانی کی بہتات تھی۔ لوگ وہاں بپتسمہ کے لئے جا تے تھے 24 یہ واقعہ یوحناّ کے قید میں ڈالے جا نے سے پہلے کا ہے۔ 25 یوحناّ کے کچھ شاگردوں نے دوسرے یہودی سے بحث و مبا حشہ کیا مذ ہبی پاکیزگی سے متعلق و ضا حت چاہتے تھے۔ 26 یوحناّ کے شا گرد اس کے پاس آئے اور کہا، “اے استاد کیا آپ کو وہ آدمی یاد ہے جو دریائے یر دن کے اُس پار آپ کے سا تھ تھا آپ لوگوں کو اس کے متعلق کہہ رہے تھے۔ وہ شخص بپتسمہ دے رہا تھا اور کئی لوگ اس کے پاس جا رہے تھے۔” 27 یوحناّ نے کہا، “آدمی وہی لے سکتاہے خدا اسے جو عطا کرے ۔ 28 جو کچھ میں نے کہا تم لوگوں نے سن لیا میں یسوع نہیں ہوں میں وہی ہوں جسے خدا نے اسکی راہ بتا نے کے لئے بھیجا ۔ 29 دلہن صرف دولہا کے لئے ہو تی ہے ۔ دوست جو دولہا کی مدد کر تے ہیں سنتے ہیں اور دولہا کی آمد کا انتظار کر تے ہیں اور یہ دوست جو دولہا کی آواز سنتے ہیں تو خوش ہو تے ہیں اور وہی خوشی میں محسو س کر تا ہوں اور میری خوشی اب مکمل ہو گئی ہے۔ 30 وہ بہت عظمت وا لا ہوگا اور میری اہمیت کم ہو گی ۔ 31 “جو آسمان سے آیا ہے دوسرے تمام لوگوں سے زیا دہ عظیم ہے اور وہ آدمی جو زمین سے تعلق رکھتا ہے زمین کا ہے وہ زمین کی چیزوں کے متعلق ہی کہے گا۔ لیکن جو آسمان سے آیا ہے وہ سب سے عظیم ہے۔ 32 اس نے جو کچھ دیکھا اور سنا ہے وہی کہتا ہے لیکن لوگ اس کے کہنے کو نہیں مانتے۔ 33 وہ آدمی جو یسوع کا کہا مانتا ہے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ خدا ہمیشہ سچ ہی کہتا ہے۔ 34 خدا نے اسکو بھیجا اور وہی کہتا ہے جو خدا نے کہا خدا نے اس کو روح کا پو را اختیار مکمل طور پر دیا۔ 35 باپ بیٹے سے محبت رکھتا ہے اور اسکو ہر چیز پر اختیار دیا ہے۔ 36 جو شخص بیٹے پر ایمان لا ئے اسکی زندگی ہمیشہ کی زندگی اور جو شخص بیٹے کی اطا عت نہ کرے اسکی ابدی زندگی نہیں اورخدا کا غضب ایسے انسان پر ہو تا ہے ۔” 1 فریسیوں نے سنا کہ یوحنا سے زیادہ یسوع اپنے شاگرد بنا رہا ہے اور انہیں بپتسمہ دے رہا ہے۔ 2 لیکن یسوع نے بذات خود لوگوں کو بپتسمہ نہیں دیا اسکے شاگردوں نے اسکی طرف سے لوگوں کو بپتسمہ دیا۔ 3 یسوع نے سنا کہ فریسیوں نے اس کے متعلق سنا ہے۔ 4 یسوع نے یہودا ہ سے واپس ہو کر گلیل پہنچا گلیل کے راستے سے جا تے وقت یسوع کو سامریہ سے گزرنا پڑا۔ 5 سامریہ میں یسوع کی آمد شہر سوخار میں ہو ئی یہ شہر اسی کھیت کے قریب ہے جسے یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دیا تھا۔ 6 یعقوب کا کنواں وہیں تھا۔ یسوع اپنے لمبے سفر سے تھک چکے تھے وہ دوپہر کا وقت تھا اور وہ کنوئیں کے قریب بیٹھ گئے۔ 7 ایک سامری عورت کنویں کے قریب پا نی لینے آئی یسوع نے اس سے کہا ، “براہ کرم مجھے پینے کے لئے پا نی دو۔” 8 اس وقت یسوع کے شاگرد شہر کھا نا لا نے کے لئے گئے تھے۔ 9 سامری عورت نے کہا، “مجھے تعجب ہے کہ تم مجھ سے پینے کے لئے پا نی مانگ رہے ہو۔ تم یہودی ہو اور میں سامری عورت ہوں” (یہودی سامریوں کے دوست نہیں ہیں ) 10 یسوع نے کہا، “جو خدا دیتا ہے اسکے بارے میں نہیں جانتے اور تجھے نہیں معلوم کہ میں کون ہوں” اور تجھ سے پا نی مانگ رہا ہوں۔ اگر ان باتوں کو تُو جانتی تو تُو مجھ سے پو چھتی اور میں تجھے زندگی کا پا نی دیتا۔” 11 عورت نے کہا، ”جناب ! آپ کے پاس کو ئی چیز نہیں جس سے پا نی لیں اور کنواں بہت گہرا ہے پھر کس طرح آپ مجھے زندگی کا پا نی دیں گے ۔ 12 کیا تو ہمارے باپ یعقوب سے بڑا ہے جس نے ہمیں یہ کنواں دیا ہے ؟اور خود وہ اسکے بیٹے اور اسکے مویشی نے اس سے پانی پیا ہے ۔” 13 یسوع نے جواب دیا ،”ہر آدمی جو اس سے پا نی پئے گا وہ پھر بھی پیا سا ہو گا ۔ 14 لیکن جو کو ئی اس پا نی کو جو میں اسکو دونگا پئے گا وہ ابد تک پیا سا نہ ہوگا اور میرا دیا ہوا اس کے لئے ایک چشمہ بن جائیگا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے ہوگا۔” 15 عورت نے یسوع سے کہا ، “تو پھر وہ پانی مجھے دے تاکہ پھر کبھی پیا سی نہ رہوں اور نہ ہی پھر کبھی پا نی لینے یہاں آؤ ں۔” 16 یسوع نے کہا ، “جا اور جاکر اپنے شوہر کو لے آ۔” 17 عورت نے جواب میں کہا، “میں شوہر نہیں رکھتی ۔” یسوع نے کہا ،“توُ نے سچ کہا کہ تیرا شوہرنہیں۔ 18 جب کہ تو پانچ شوہر کر چکی ہے اور تو جس کے ساتھ اب ہے وہ تیرا شوہر نہیں اور یہ تو نے سچ کہا۔” 19 عورت نے کہا ،“میں دیکھ رہی ہوں کہہ تم نبی ہو ۔ 20 ہمارے باپ دادا نے اس پہاڑی پر عبادت کی لیکن تم یہودی یہ کہتے ہو کہ یروشلم ہی وہ صحیح جگہ ہے جہاں عبادت کی جانی چاہئے ۔” 21 یسوع نے کہا ، “اے عورت یقین کر کہ وہ وقت آرہا ہے کہ نہ تم یروشلم جاؤ گی اور نہ ہی پہاڑی پر خدا کی عبادت کرو گی ۔ 22 سامری لوگ کچھ ایسی چیزوں کی عبادت کر تے ہیں جو تم خود نہیں جانتے ، “ہم یہودی جانتے ہیں کس کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں سے ہے۔ 23 وہ وقت آرہا ہے اور وہ اب یہاں ہے جب کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اورسچائی سے کرینگے ۔ تو مقدس باپ ایسے ہی لوگوں کو چاہتا ہے جو اسکے پرستار ہوں ۔ 24 خدا روح ہے اور اسکے پرستاروں کو روح اور سچائی سے پرستش کر نی ہو گی۔ 25 عورت نے جواب دیا ،“میں جانتی ہوں کہ مسیحا (یعنی مسیح) آرہے ہیں اور جب وہ آئیں گے ہمیں ہر چیز سمجھا ئیں گے ۔” 26 یسوع نے کہا ، “وہی شخص تم سے بات کر رہا ہے اور میں ہی مسیح ہوں۔” 27 اس وقت یسوع کے شاگرد شہر سے واپس آئے وہ لوگ بہت حیران ہو ئے کہ یسوع ایک عورت سے بات کر رہا ہے لیکن کسی نے بھی یہ نہ پو چھا ، “آپ کو کیا چا ہئے” اور “آپ اس عورت سے کیوں بات کر رہے ہو”۔ 28 تب وہ عورت پانی کا مٹکا چھوڑ کر واپس شہر چلی گئی اور اس نے شہر میں لوگوں سے کہا ۔، 29 ، “ایک آدمی نے مجھ سے ہر وہ بات کہی ہے جو میں نے کیں آؤ اور اسکو دیکھو ممکن ہے وہ مسیح ہو۔” 30 اور لوگ یسوع کو دیکھنے شہر سے آنے لگے۔ 31 جب وہ عورت شہر میں تھی یسوع کے شاگر دوں نے التجا کی ، “اے استاد کچھ کھا ئیے۔” 32 لیکن یسوع نے جواب دیا ، “میرے پاس کھا نے کے لئے ایسا کھا نا ہے جسے تم نہیں جانتے۔” 33 پھر شاگرد آپس میں سوال کر نے لگے ، “کیا کو ئی یسوع کے کھا نے کے لئے کچھ لا یا ہے؟” 34 یسوع نے کہا ، “میرا کھا نا یہی ہے کہ اس کی مرضی کے مطا بق کا م کروں جس نے مجھے بھیجا ہے۔ میری غذا یہی ہے کہ میں اس کام کو ختم کروں جو خدا نے میرے ذمہ کیا ہے۔ 35 جب تم بوتے ہو تو کہتے ہو کہ فصل آنے میں چار مہینے چاہئے لیکن میں تم سے کہتا ہوں اپنی آنکھیں کھولو اور لوگوں کو دیکھو وہ فصل کی مانند کٹنے کے لئے تیار ہیں ۔ 36 اور فصل کاٹنے والا اپنی اجرت پا تا اور بیرونی زند گی کے لئے اناج جمع کر تا ہے تاکہ فصل بونے اور کاٹنے والا دونوں خوش رہیں ۔” 37 لوگ جو کہتے ہیں وہ صحیح ہے فصل کو ئی بوتا ہے اور فائدہ دوسرا اٹھا تا ہے ۔ 38 میں نے تمہیں فصل کی کاشت کے لئے بھیجا جس کے بونے میں تم نے محنت نہیں کی لیکن دوسروں نے محنت کی اور تم انکی محنت کا پھل پا تے ہو ۔” 39 اس شہر کے کئی سامری لوگ یسوع پر ایمان لے آئے ان لوگوں نے اس عورت کی بات پر یقین کیا جو اس نے کہا تھا، “یسوع نے وہ سب کچھ کہا جو میں نے کیا ۔” 40 سامری یسوع کے پا س آئے اور اس سے درخواست کی کہ وہ انکے پاس ٹھہرے اس طرح یسوع نے انکے پاس دو دن قیام کیا ۔ 41 جو کچھ یسوع نے کہا اس پر بہت سارے لوگ نے ایمان لائے ۔ 42 لوگوں نے عورت سے کہا، “سب سے پہلے ہم یسوع پر ایمان لائے کیوں کہ تم نے ہم سے کہا ۔ لیکن ہم یقین رکھتے ہیں کیوں کہ ہم خود ان سے سن چکے ہیں ۔ ہمیں سچا ئی معلوم ہے کہ وہی نجات دہندہ ہے جو دنیا کو بچا لیگا ۔” 43 دو دن بعد یسوع نے شہر چھو ڑا اور گلیل روا نہ ہو گئے ۔ 44 یسوع کہہ چکے تھے کہ اس سے قبل لوگوں نے اپنے ہی شہر میں کسی نبی کی عزت نہیں کی تھی ۔ 45 جب یسوع گلیل پہونچے تو لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہا ۔ ان لوگوں نے وہ سب کچھ اپنی آنکھو ں سے دیکھاتھا جو یروشلم میں یسوع نے فسح کی تقریب پر ان کے سامنے کئے تھے۔ 46 یسوع دوبارہ گلیل شہر قانا روانہ ہوئے۔ قا نا ہی وہ شہر ہے جہاں یسوع نے پا نی کو مئے میں تبدیل کیا تھا۔ با دشاہ کے افسروں میں ایک اہم افسر کفر نحوم کے شہر میں رہتا تھا اس افسر کا ایک لڑ کا بیمار تھا۔ 47 لوگوں کو معلوم ہوا کہ یسوع یہوداہ سے آئے ہیں اور گلیلی میں ہیں اور وہ لوگ شہر قانا میں یسوع کے پاس گئے اور استد عا کی کہ یسوع شہر کفر نحوم کو آئے اور اس لڑکے کا علا ج کرے۔ افسر کا لڑ کا قریب مر چکا تھا۔ 48 یسوع نے اس سے کہا ، “جب تک تم لوگ معجزات اور عجیب وغریب چیزیں نہیں دیکھو گے مجھ پر ایمان نہیں لا ؤگے۔” 49 باد شاہ کے وزیر نے درخواست کی کہ“میرا بچہ مر نے کے قریب ہے اسکی موت سے پہلے چلیں۔” 50 یسوع نے کہا ، “جاؤ تمہا را بچہ زندہ رہیگا !” اور اس شخص کو یسوع کے بات پر ایمان تھا یسوع کے کہنے پر اپنے گھر روانہ ہُوا۔ 51 راستے ہی میں اس آدمی کا خادم ملا اس نے کہا ، “تمہا را لڑکا اب صحتیاب ہے ۔” 52 تب اس نے خادم سے پوچھا ، “میرا بچہ کس وقت اچھا ہوا۔” خادم نے جواب دیا ، “گذشتہ کل تقریباً ایک بجے اس کا بخا ر کم ہوا ۔” 53 اس لڑکے کے باپ (افسر) نے خیال کیا ایک بجے کا وقت وہی وقت تھا جس وقت یسوع نے کہا تھا ،”تمہارا لڑکا زندہ رہیگا ، “تب اس نے اور اس کے گھر کے تمام لوگ یسوع پر ایمان لا ئے۔ 54 یہ دوسرا معجزہ تھا جو یسوع نے یہوداہ سے گلیل ؤنے کے بعد کیا تھا ۔ 1 اس کے بعد یہودیوں کی ایک تقریب پر یروشلم روانہ ہو ئے ۔ 2 یروشلم میں بھیڑ دروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو پانچ برآمدوں پر مشتمل ہے اور عبرانی زبان میں بیت حسدا کہلا تا ہے ۔ 3 کئی بیمار اندھے لنگڑے اور فالج زدہ لوگ اس حوض کے پاس رہتے ہیں اور پا نی کے ہلنے کے منتظر رہتے ہیں 4 آیت۳ کے آخر میں کچھ یونانی صحیفوں میں یہ حصّہ جوڑا گیا ہے ، “وہ پانی کے بہنے کا انتظار کئے” اور کچھ حالیہ صحیفوں میں آیت ۴جوڑی گئی ہے ، “کبھی خدا وند کا فرشتہ آکر حوض کے پانی کو ہلایا –فرشتہ کے ایسا کر نے کے بعد کوئی بھی بیمار شخص جو سب سے پہلے اس میں اترتا تو اسے شفاء مل جاتی چاہے اسے کیسا ہی بیماری کیوں نہ ہو- 5 اسی مقام پر ایک شخص تھا جو تقریباً اڑتیس سال سے بیمار تھا ۔ 6 جب یسو ع نے اسکو وہاں پڑے ہو ئے دیکھا اور یہ جان کر کہ وہ اڑتیس سال سے بیمار ہے اس سے پو چھا ، “کیا تو صحت پا نا چاہتا ہے ۔” 7 اس آدمی نے جواب دیا ، “جناب میرے پاس کو ئی آدمی نہیں جو مجھے اس وقت مدد دے سکے جب فرشتہ پا نی کو ہلا تا ہے اور جب تک میں جاؤں کوئی دوسرا اس میں اتر جاتا ہے ۔” 8 یسوع نے اس سے کہا، “اٹھ اپنا بستر اٹھا اور چل ۔” 9 وہ شخص فوراً اچھا تندرست ہو گیا اور اپنا بستر اٹھا کر چلنے لگا ۔ یہ واقعہ جس وقت ہوا وہ دن سبت دن کا تھا ۔ 10 اس لئے یہودیوں نے جو آدمی تندرست ہوا تھا اس سے کہا، “آج سبت کا دن ہے ہماری شریعت کے خلاف ہے کہ تم اپنا بستر سبت کے دن اٹھاؤ۔” 11 لیکن اس آدمی نے کہا ، “جس آدمی نے مجھے شفا دی اس نے کہا کہ اپنا بستر اٹھا ؤ اور چلو ۔” 12 یہودیوں نے اس سے دریافت کیا ، “کون ہے وہ آدمی جس نے تمہیں بستر اٹھا کر چلنے کے لئے کہا ۔” 13 لیکن وہ آدمی جس کو شفاء ملی تھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھا اس مقام پر کئی آدمی تھے اور یسوع وہاں سے جا چکے تھے۔ 14 بعد میں یسوع اس آدمی سے ہیکل میں ملے یسوع نے اس سے کہا ، “دیکھو تم اب تندرست ہو چکے ہو لیکن اب گناہوں سے اور بری باتوں سے بچنا ، “ورنہ تمہارا بُراہوگا ۔ 15 تب وہ آدمی وہاں سے نکل کر ان یہودیوں کے پاس پہو نچا اور کہا یسو ع ہی وہ آ دمی تھے جس نے مجھے تندرست کیا۔ 16 یسوع نے اس طرح کی شفاء سبت کے دن کی تھی ۔اس وجہ سے اور یہودیوں نے یسوع کے ساتھ برا کرنا شروع کیا ۔ 17 لیکن یسوع نے یہودیوں سے کہا ، “میرا باپ کبھی کام سے نہیں رُکتا اسلئے میں بھی کام کرتا رہونگا ۔” 18 ان باتوں نے یہودیوں کو مجبور کردیا کہ وہ اسے قتل کرنے کی کوشش کریں ۔ پہلے تو یسوع نے شریعت کی خلاف ورزی کی پھر خدا کو اپنا باپ کہ کر اپنے آپ کو خدا کے برابر بنایا ۔ 19 یسوع نے کہا، ”میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا اپنے آپ سے کچھ نہیں کرسکتا بیٹا وہی کرتا ہے جو وہ اپنے باپ کو کرتے دیکھے۔ 20 باپ بیٹے سے محبت کر تا ہے اسلئے وہ سب کچھ اپنے بیٹے کو بتا تا ہے جو وہ کرتا ہے ۔ اسکے علاوہ وہ اس سے بھی بڑے کام دکھلا تا ہے جس سے تم حیران ہو جاؤ گے ۔ 21 جیسے باپ مردوں کو زندہ اٹھا تا ہے ۔اس طرح بیٹا جسے چاہے وہ بھی مردوں کو زندہ اٹھا تا ہے ۔ 22 کیوں کہ باپ کسی کی عدالتی کار روائی نہیں کر تا اسلئے سب کچھ بیٹے کے سپرد کر تا ہے ۔ 23 اس لئے لوگ جس طرح باپ کی عزت کر تے ہیں اسی طرح بیٹے کی بھی عزت کریں گے اور جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا گو یا وہ باپ کی عزت نہیں کر تا ۔ وہ باپ ہی ہے جس نے بیٹے کو بھیجا ہے ۔ 24 میں تم سے سچ کہتا ہوں اگر کو ئی میرا کلام سنُ کر جو بھی میں نے کہا ہے، اس پر ایمان لا تاہے جس نے مجھے بھیجا ہے تو اسکو ہمیشہ کی زندگی نصیب ہو تی ہے ۔ اس پر کسی بھی قسم کی سزا کا حکم نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ وہ موت سے نکل کرزندگی میں داخل ہو چکا ہوتا ہے ۔ 25 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک اہم وقت آ نے والا ہے بلکہ ابھی بھی ہے جو لوگ گناہ میں مرے ہیں وہ خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سن رہے ہیں وہ رہیں گے ۔ 26 زندگی کی دین باپ کے طرف سے ہے اس لئے باپ نے بیٹے کو اجازت دی ہے کہ زندگی دے ۔ 27 باپ نے بیٹے کو عدالت کا بھی اختیار دیا ہے کیوں کہ وہی ابن آدم ہے ۔ 28 اس پر تعجب کر نے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ وقت آرہا ہے جب کہ مرے ہو ئے لوگ جو قبروں میں ہیں اس کی آواز سن سکیں گے ۔ 29 تب وہ لوگ اپنی قبروں سے نکلیں گے اور جنہوں نے اچھے اعمال کئے ہیں انہیں ہمیشہ کی زندگی ملیگی اور جن لوگوں نے برائیاں کیں ہیں انہیں مجرم قرار دیا جائیگا ۔ 30 ، “میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا جس طرح مجھے حکم ملتا ہے اسی طرح فیصلہ کرتا ہوں اسی لئے میرا فیصلہ صحیح ہے کیوں کہ میں اپنی خوشی یا مرضی سے نہیں کر تا ۔ لیکن میں وہی کر تا ہوں جس نے مجھے اپنی خوشی سے بھیجا ہے ۔ 31 ، “اگر میں لوگوں سے اپنے متعلق کچھ کہوں تو وہ میری گواہی پر کبھی یقین نہیں کریں گے اور جو میں کہتا ہوں وہ نہیں مانیں گے ۔ 32 لیکن ایک دوسرا آدمی ہے جو لوگوں سے میرے بارے میں کہتا ہے اور میں جانتا ہوں وہ جو میرے بارے میں کہتا ہے وہ سچ ہے ۔ 33 ، “تم نے لوگوں کو یوحناّ کے پاس بھیجا اور اس نے تم کو سچاّئی بتائی ۔ 34 میں ضروری نہیں سمجھتا کہ کوئی میری نسبت لوگوں سے کہے مگر میں یہ سب کچھ تم کو بتاتا ہوں تاکہ تم بچے رہو ۔ 35 یوحناّ ایک چراغ کی مانند تھا جو خود جل کر دوسروں کو روشنی پہنچا تا رہا اور تم نے چند دن کے لئے اس روشنی سے استفادہ حاصل کیا ۔ 36 ، “لیکن میں اپنے بارے میں ثبوت رکھتا ہو ں جو یوحناّ سے بڑھ کر ہے جو کام میں کرتا ہوں وہی میرا ثبوت ہے اور یہی چیزیں میرے باپ نے مجھے عطا کی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ میرے باپ نے مجھے بھیجا ہے ۔ 37 جس باپ نے مجھے بھیجا ہے میرے لئے ثبوت بھی دیئے ہیں لیکن تم لوگوں نے اسکی آواز نہیں سنی اور تم نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ وہ کیسا ہے ۔ 38 میرے باپ کی تعلیمات کا کو ئی اثر تم میں نہیں کیوں کہ تم اس میں یقین نہیں رکھتے جس کو باپ نے بھیجا ہے ۔ 39 تم صحیفوں میں بغور ڈھونڈتے ہو یہ سمجھتے ہو کہ اس میں تمہیں ابدی زندگی ملے گی ۔ لیکن ان صحیفوں میں تمہیں میرا ہی ثبوت ملے گا ۔ جو میری طرف اشارہ ہے ۔ 40 لیکن تم لوگ جس طرح کی زندگی چاہتے ہو اس کو پا نے کے لئے میرے پاس نہیں آتے ۔ 41 میں نہیں چاہتا کہ لوگ میری تعریف کریں ۔ 42 لیکن میں تمہیں جانتا ہوں کہ تمہیں خدا سے محبت نہیں ۔ 43 میں اپنے باپ کی طرف سے آیا ہوں میں اسی کی طرف سے کہتا ہوں پھر بھی مجھے قبول نہیں کر تے لیکن جب دوسرا آدمی خود اپنے بارے میں کہتا ہے تو تم اسے قبول کر تے ہو ۔ 44 تم چاہتے ہو ہر ایک تمہاری تعریف کرے لیکن اسکی کوشش نہیں کرتے جو تعریف خدا کی طرف سے ہو تی ہو ۔ پھر تم کس طرح یقین کروگے ۔ 45 یہ نہ سمجھنا کہ میں باپ کے سامنے کھڑا ہو کر تمہیں ملزم ٹھہراؤنگا موسٰی ہی وہ شخص ہے جو تمہیں ملزم ٹھہرا ئے گا ۔ اور تم غلط فہمی میں ان سے امید لگا ئے بیٹھے ہو ۔ 46 اگر تم حقیقت میں موسٰی پر یقین رکھتے ہو تو تمہیں مجھ پر بھی ایمان لا نا چاہئے اسلئے کہ موسٰی نے میرے بارے میں لکھا ہے ۔ 47 تمہیں اسکا یقین نہیں کہ موسٰی نے کیا لکھا ہے اسلئے جو میں کہتا ہوں ان چیزوں کے متعلق تم کیسے یقین کروگے ؟” 1 اسکے بعد یسوع گلیل کی جھیل کے اس پار پہونچے ۔ 2 کئی لوگ یسوع کے ساتھ ہو لئے اور انہوں نے یسوع کے معجزوں کو دیکھا اور بیماروں کو شفاء بخشتے دیکھا ۔ 3 یسوع اوپر پہاڑی پر گئے وہ وہاں اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ 4 یہودیوں کی فسح کی تقریب کا دن قریب تھا ۔ 5 یسوع نے دیکھا کہ کئی لوگ ان کی جانب آ رہے ہیں ۔ یسوع نے فلپ سے کہا ،”ہم اتنے لوگوں کے لئے کہاں سے روٹی خرید سکتے ہیں تا کہ سب کھا سکیں ؟” 6 یسوع نے فلپ سے یہ بات اسکو آزمانے کے لئے کہی یسوع کو پہلے ہی معلوم تھا کہ وہ کیا ترکیب سوچ رکھے ہیں ۔ 7 فلپ نے جواب دیا ،”ہم سب کو ایک مہینہ تک کچھ کام کرنا چاہئے تا کہ ہر ایک کو کھا نے کے لئے روٹی حاصل ہو سکے اور انہیں کم سے کم کچھ غذا میسّر ہو ۔” 8 دوسرا ساتھی اندر یاس تھا جو سائمن پطرس کا بھا ئی تھا اندریاس نے کہا ۔ 9 ، “یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس بارلی کی روٹی کے پانچ ٹکڑے اور دو مچھلیاں ہیں لیکن یہ ا ن سب کے لئے کا فی نہیں ہوگا ۔” 10 یسوع نے کہا ، “لوگوں سے کہو کہ بیٹھ جائیں ۔” وہاں اس مقام پر کافی گھاس تھی وہاں ۵۰۰۰ آدمی تھے اور وہ سب بیٹھ گئے ۔ 11 تب یسوع نے روٹی کے ٹکڑے لئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور جو لوگ بیٹھے ہو ئے تھے ان کو دیا اسی طرح مچھلی بھی دی اس نے انکو جتنا چاہئے تھا اتنا دیا ۔ 12 سب لوگ سیر ہو کر کھا چکے جب وہ لوگ کھا چکے تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ، “بچے ہو ئے ٹکڑوں کو جمع کرو اور کچھ بھی ضائع نہ کرو ۔” 13 اسطرح شاگردوں نے تمام ٹکڑوں کو جمع کیا اور ان لوگوں نے بارلی کی روٹی کے پانچ ٹکڑوں سے ہی کھانا شروع کیا اور انکے ساتھیوں نے تقریباً بارہ ٹوکریوں میں ٹکڑے جمع کئے ۔ 14 لوگوں نے یہ معجزہ دیکھا جو یسوع نے انہیں بتا یا لوگوں نے کہا ، “یہی نبی ہے جو عنقریب دنیا میں آنے والے ہیں ۔” 15 پس یسوع یہ بات معلوم کرکے کہ لوگ اسے آکر بادشاہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے وہ دوبارہ تنہا پہاڑی کی طرف چلے گئے ۔ 16 اس رات یسوع کے شاگرد گلیل جھیل کی طرف گئے ۔ 17 اس وقت اندھیرا ہو چکا تھا اور یسوع انکے پاس اب تک واپس نہیں آئے تھے ۔اور انکے شاگرد ایک کشتی پر سوار ہو کر جھیل کے پاس کفر نحوم جانے لگے ۔ 18 اس وقت ہوا بہت تیز چل رہی تھی ۔اور جھیل میں زور دار لہریں اٹھ رہیں تھیں ۔ 19 وہ کشتی میں تین یا چار میل گئے تب انہوں نے دیکھا کہ یسوع پا نی پر چل رہے تھے اور کشتی کی طرف آرہے تھے اور یہ دیکھ کر انکے شاگرد ڈر گئے ۔ 20 لیکن یسوع نے ان سے کہا ، “ڈرو مت یہ میں ہوں ۔” 21 اتنا سن کر انکے ساتھی بہت خوش ہو ئے اور یسوع کو کشتی میں لے لیا اور کشتی جلد ہی واپس کنا رے آگئی جہاں وہ جا نا چاہتے تھے ۔ 22 دوسرے دن لوگ جھیل کے پار جو لوگ ٹھہرے ہو ئے تھے انہیں معلوم تھا کہ یسوع کشتی میں اپنے شاگردوں کے ساتھ نہیں گئے بلکہ صرف انکے شاگرد ہی کشتی میں گئے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ صرف وہی کشتی وہاں تھی ۔ 23 لیکن جب تبریاس سے چند کشتیاں آئیں اور آکر وہیں ٹھہریں جہاں ان لوگوں نے گزشتہ دن روٹی کھا ئی تھی اور جہاں خدا وند نے شکر ادا کیا تھا ۔ 24 جب لوگوں نے دیکھا کہ یسوع اور انکے ساتھی اس وقت وہاں نہیں تھے، تو لوگ کشتی میں سوار ہو کر کفر نحوم کی جانب روانہ ہو ئے تا کہ یسوع سے ملیں ۔ 25 لوگوں نے دیکھا کہ یسوع جھیل کے دوسری طرف ہے ان لوگوں نے یسوع سے کہا ، “اے استاد ! آپ یہاں کب آئے ؟” 26 یسوع نے جواب دیا ، “تم لوگ مجھے کیوں تلاش کر رہے ہو ۔ کیا تم اسلئے مجھے تلاش کر رہے ہو کہ معجزے دکھا تا پھروں اور اپنی قوت کا مظاہرہ کروں ہر گزنہیں! میں تم سے سچ کہتا ہوں تم مجھے اس لئے تلاش کر رہے ہو تم لوگ پیٹ بھر روٹی کھا کر تسّلی کرو ۔ 27 دنیا کی غذائیں خراب اور تباہ ہو جانے والی ہیں ۔لہذا ایسی غذا کو مت حاصل کرو بلکہ ایسی غذا کو تلاش کرو جو ہمیشہ اچھی ہو اور تمہیں ابدی زندگی دے سکے ابن آدم ہی تم کو ایسی غذا دیگا خدا جو باپ ہے وہ یہ ظاہر کر چکا ہے کہ وہ ابن آدم کے ساتھ ہے ۔” 28 لوگوں نے یسوع سے پوچھا ، “ہمیں کیا کرنا چاہئے تا کہ خدا کا کام جو وہ چاہتا ہے کر سکیں ؟” 29 یسوع نے کہا ، “خدا تم سے یہی چاہتا ہے کہ اس نے جس کو بھیجا ہے اس پر ایمان لاؤ ۔” 30 لوگوں نے کہا ، “تم کیا معجزہ دکھا ؤگے تا کہ یہ ثا بت ہو جا ئے کہ تم ہی وہ ہو جسے خدا نے بھیجا ہے۔ ایسا کو ئی معجزہ تم دکھا ؤ تب ہی ہم تمہا را یقین کریں گے کہ تم کیا کرو گے۔ 31 ہما رے آباء واجداد کو خدا نے ریگستا ن میں منّ ( کھا نے کی نعمتیں) عطا کی تھی اور یہ صحیفوں میں لکھا ہے اور خدا انہیں کھا نے کے لئے جنت سے روٹی بھیجوا تا تھا۔” 32 یسوع نے کہا، ”میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک موسیٰ ہی نہیں تھے جو تمہا رے لوگوں کے لئے آسمان سے روٹی لا یا کر تے تھے در اصل وہ میرا باپ ہے جو تم لوگوں کو آسمان سے روٹی دیتا ہے۔ 33 خدا کی روٹی کیا ہے ؟ جو روٹی خدا دیتا ہے وہ وہی ہے جو آسمان سے آکر دنیا کو اپنی زندگی دیتی ہے ۔” 34 لوگوں نے کہا، ”جناب تو یہ روٹی ہمیشہ کے لئے دلائیں۔” 35 تب یسوع نے کہا ، “میں ہی وہ روٹی ہوں جو زندگی دیتی ہے ۔جو بھی میرے پا س آتا ہے۔ وہ کبھی بھو کا نہیں رہیگا۔ اور جو مجھ پر ایمان لا یا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ 36 میں تم سے بھی یہ پہلے ہی کہہ چکا ہوں تم مجھے دیکھ چکے ہو لیکن تم کو اب تک یقین نہیں آرہا ہے۔ 37 میرا باپ میرے لوگوں کے پا س بھیجتا ہے ہر ایک شخص میرے پا س آتا ہے جو بھی میرے پاس آتا ہے میں اسے قبول کرتا ہوں۔ 38 میں آسمان سے آیا ہوں اور اپنی مرضی پو ری کر نے کے لئے نہیں آیا بلکہ خدا کی مرضی کے مطا بق کر نے کے لئے آیاہوں۔ 39 مجھے ان لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں کھونا چاہئے جن کو خدا نے میرے پاس بھیجا ہے اور انکومیں آخرت کے دن زندہ اٹھا ؤں گا اور یہی کچھ وہ مجھ سے چا ہتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے ۔ 40 ہر آدمی جو بیٹے کو دیکھتا ہے اور اس پر ایمان لا تا ہے اس کو ابدی زندگی حا صل ہو تی ہے اوراسی آدمی کو میں آخرت کے دن زندہ اٹھا ؤں گا ، “اور یہی میرا باپ چاہتاہے۔ 41 یہودیوں نے یسوع کے متعلق شکایت کر نی شروع کر دی کیوں کہ اس نے کہا ، “تھا میں روٹی ہوں جو خدا کی طرف سے آسمان سے آیاہوں۔” 42 یہودیوں نے کہا ، “یہ یسوع ہے ہم اس کے باپ اور ماں کو اچھی طرح جا نتے ہیں ۔یسوع تو یوسف کا بیٹا ہے اس لئے وہ اب ایسا کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں آسمان سے آیا ہوں؟” 43 لیکن یسوع نے کہا، ”ایک دوسرے سے شکا یت کر نی بند کرو۔ 44 باپ وہی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور لوگوں کو میرے پاس لاتا ہے جنہیں آ خرت کے دن اٹھا ؤں گا اگر باپ کسی کو میرے پا س نہ لا ئے تو ایسا آدمی میرے پاس نہیں آ سکتا۔ 45 یہ بات نبیوں نے لکھی ہے، “خدا تمام لوگوں کو تعلیم دیتاہے اور لوگ جوباپ سے سن کر سیکھتے ہیں وہ میرے پاس آتے ہیں۔ ، “ 46 میرے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ ہر کسی نے باپ کو نہیں دیکھا ہے سوائے اس آدمی کے جو باپ کی طرف سے آیا ہے۔” 47 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو شخص مجھ پر ایمان لا تا ہے وہی ابدی زندگی پا سکتا ہے۔” 48 میں وہ روٹی ہوں جو حیات بخشتی ہے۔ 49 تمہا رے آبا ء و اجدادنے ریگستان میں منّ کھایا لیکن وہ فوت ہو گئے۔ 50 میں وہ روٹی ہوں جو آسمان سے آئی ہے اور جو یہ روٹی کھا ئیگا وہ کبھی نہیں مریگا ۔ 51 میں حیات کی روٹی ہوں جو آسما ن سے آئی ہے اور جس نے اس کو استعمال کیا اس نے ہمیشہ کی زندگی پا ئی ہے یہ روٹی جو میں دیتا ہوں میرا جسم ہے میں یہ جسم دوں گا تا کہ لو گ اس دنیا میں زندگی پا سکیں۔” 52 اس پر یہودیوں نے آپس میں بحث و مباحشہ شروع کیا اور کہا ، “یہ شخص کس طرح اپنا جسم ہمیں کھا نے کو دیگا ؟” 53 یسوع نے کہا ، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تمہیں ابن آدم کے جسم کو کھا نا چا ہئے اور اسکے خون کو پینا چاہئے۔اگر تم ایسا نہیں کر تے ہو تو تمہیں حقیقی زندگی نصیب نہیں ہو گی ۔ 54 جس نے میرے جسم کو غذا بنائی اور خون کو پیا اس نے لا فا نی زندگی پا ئی اور ایسے آدمی کومیں آخرت کے دن اٹھا ؤں گا ۔ 55 میرا جسم اور خون سچی مشروب ہے ۔ 56 اور جو میرا جسم کھا تا ہے اور خون پیتا ہے ایسا آدمی میں ہوں اور مجھ میں وہ رہتا ہے ۔ 57 باپ نے مجھے بھیجا اور میں باپ کی وجہ سے رہتا ہوں۔ اسی طرح جو مجھے غذا کے طور پر استعمال کریں گے میری وجہ سے وہ رہیں گے ۔ 58 میں اس روٹی کی ما نند نہیں ہوں جو ہما رے آباء واجداد نے ریگستان میں کھا ئی تھی حا لانکہ وہ کھا تے تھے مگر اوروں کی طرح انہیں بھی موت آئی۔ میں وہ روٹی ہو ں جو آسمان سے آ ئی ہے اور جس نے اس روٹی کو کھایا کیا اس نے حقیقی زندگی پائی ۔؟” 59 یسوع نے یہ تمام باتیں اس وقت کہیں جب کفر نحوم میں یہودی عبادت گاہ میں لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے ۔ 60 کئی شاگردوں نے یسوع کی تعلیمات کو سنا اور سن کر کہا ، “یہ تعلیم تو بہت مشکل ہے اس کو کون قبول کریگا ؟۔” 61 یسوع اچھی طرح جان گیا کہ یہ شاگرد اس کے متعلق شکایت کر رہے ہیں۔ تب یسوع نے کہا کیا تم میری تعلیمات کی وجہ سے پریشان ہو؟ 62 اگر تم ابن آدم کو اوپر جاتے دیکھو گے جہاں وہ پہلے تھا توکیا ہوگا ؟ 63 یہ جسم کچھ بھی نہیں حا صل کر سکتا۔یہ تو روح ہے ۔ جو انسان کو زندگی بخشتی ہے ۔اور یہی باتیں جو میں نے کہی ہیں وہ روح کی ہیں جو تمہیں زندگی دیتی ہیں۔ 64 لیکن تم میں سے کچھ لوگ ان باتوں کا یقین نہیں کروگے۔”کیوں کہ یسوع نے جان لیا کہ کون یقین نہیں کر رہا ہے ۔اور اس بات کو وہ شروع سے ہی جان گیاتھا کہ کون انہیں دھو کا دیگا۔ 65 یسوع نے کہا ، “جس آدمی کو با پ نہ بھیجے وہ آدمی میرے پا س نہیں آ سکتا ۔” 66 جب یسوع نے یہ باتیں کہیں اس کے بہت سے شاگردوں نے اسے چھوڑ دیا۔وہ یسوع کی باتوں پرعمل کرنا چھوڑ دیا ۔ 67 یسوع نے اپنے بارہ رسولوں سے یہ بھی پوچھا ، “کیا تم بھی مجھے چھوڑنا چاہتے ہو؟” 68 سائمن پطرس نے یسوع سے کہا، ، “خدا وند ہم کہاں جا سکتے ہیں آپ کے پاس کلا م ہے جو ہمیں ہمیشہ کی زند گی دے سکتا ہے ۔ 69 ہم کو آپ پر عقیدہ ہے ہم جانتے ہیں کہ آپ ہی وہ مقدس ہستی ہیں جو خدا کی طرف سے ہیں۔” 70 تب یسوع نے کہا ، “میں تم بارہ کو منتخب کرتا ہوں لیکن تم میں ایک شیطان ہے”۔ 71 یہ بات یسوع نے یہوداہ کے متعلق کہی تھی جو سائمن اسکریوتی کا بیٹا تھا۔ یہوداہ بارہ مریدوں میں سے ایک تھا لیکن بعد میں یسوع کا مخا لف ہو گیا۔” 1 اس کے بعد یسوع نے ملک گلیل کے اطراف میں سفر کئے یسوع یہوداہ میں سفر کرنا نہیں چا ہتے تھے کیوں کہ وہا ں کے یہودی اسے قتل کر نے کی کوشش میں تھے۔ 2 اور یہودیوں کی پناہوں کی تقریب قریب تھی ۔ 3 تب یسوع کے بھا ئیوں نے کہا ، “تو یہ جگہ چھوڑ کر یہوداہ چلے جا تا کہ جو معجزہ تو دکھا تا ہے وہ تمہارے شاگرد بھی دیکھیں ۔ 4 اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ وہ لوگوں میں پہچانا جائے تو پھر ایسے شخص کو جو کچھ وہ کرتا ہے چھپا نا نہیں چاہئے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے ظاہر کرو تاکہ وہ سب تمہارے معجزے دیکھ سکیں ۔” 5 حتیٰ کہ یسوع کے بھا ئی کو بھی ان پر یقین نہیں تھا ۔ 6 یسوع نے اپنے بھا ئیوں سے کہا ، “ابھی میرے لئے صحیح وقت نہیں آیا لیکن کو ئی بھی وقت تمہارے جانے کے لئے مناسب ہے ۔ 7 دنیا تم سے نفرت نہیں کر سکتی وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے کیوں کہ میں انکو ان کی برائیاں بتا تا ہوں جو وہ کر تے ہیں ۔ 8 اس لئے تم تقریب کے موقع پر جاؤمیں اس بار تقریب پر نہیں آؤنگا کیوں کہ ابھی میرے لئے صحیح موقع نہیں آیا ۔” 9 یہ سب کچھ کہنے کے بعد یسوع نے گلیل میں قیام کیا۔ 10 اسلئے یسوع کے بھائیوں نے انکے کہنے کے مطابق تقریب کے موقع پر جانے کے لئے روانہ ہوئے ۔انکے جانے کے بعد یسوع بھی وہاں چلے گئے اس کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کیا ۔بلکہ پوشیدہ ہو گئے ۔ 11 تقریب کے موقع پر یہودی یسوع کی تلاش میں تھے کہہ رہے تھے کہ وہ کہاں ہے ؟” 12 وہاں ایک بڑا گروہ لوگوں کا تھا جو خفیہ طور پر یسوع کے بارے میں ہی باتیں کر رہا تھا ۔ کچھ لوگوں نے کہا ، “یسوع ایک اچھا آدمی ہے ، “لیکن دوسروں نے کہا ، “نہیں وہ لوگوں کو بے وقوف بنا تا ہے ۔” 13 لیکن کسی نے بھی کھلے طور پر یسوع کے سامنے ایسا نہیں کہا کیوں کہ لوگ یہودی قائدین سے ڈر تے تھے ۔ 14 تقریب لگ بھگ آدھی ختم ہو چکی تھی تب یسوع عبادت گاہ میں داخل ہوا اور تعلیم شروع کی ۔ 15 یہودی بڑے حیران ہو ئے انہوں نے کہا ، “یہ شخص تو اسکول میں نہیں پڑھا پھر اتنا سب کچھ اس نے کس طرح سیکھا ؟۔” 16 یسوع نے جواب دیا ، “جو کچھ میں تعلیم دیتا ہوں وہ میری اپنی نہیں میری تعلیمات اس کی طرف سے آتی ہیں جس نے مجھے بھیجا ہے ۔ 17 اگر کو ئی یہ چاہے کہ وہ وہی کرے جو خدا چاہتا ہے تب وہ جان جائیگا کہ میری تعلیمات خدا کی طرف سے ہیں ۔وہ لوگ جان جائیں گے کہ یہ تعلیمات میری اپنی نہیں ہیں۔ 18 کوئی شخص جو اپنے خیالات لوگوں کو بتا تا ہے گویا وہ اپنی عزت بڑھا نے کے لئے کر تا ہے اگر چہ کو ئی شخص جو اسکی عزت بڑھا نے کی کو شش کرے جس نے اسکو بھیجا ہے تو ایسا شخص قابل بھروسہ سچّا ہے۔ اور اس میں کو ئی جھو ٹ نہیں ہے۔ 19 کیا موسٰی نے تم کو شریعت نہیں دی ؟لیکن تم میں سے کسی نے اسکی فرماں برداری نہیں کی تم لوگ مجھے کیوں مارنا چاہتے ہو ؟” 20 لوگوں نے جواب دیا ، “ایک خبیث تم میں آیا ہے اور تمہیں دیوانہ کر دیا ہے ہم تمہیں مار نے کی کو شش نہیں کر رہے ہیں؟” 21 یسوع نے کہا ، “میں نے ایک معجزہ کیا اور تم سب حیران ہو ئے ۔ 22 موسٰی نے تمہیں ختنہ کر نے کا قانون دیا لیکن حقیقت میں موسٰی نے تمہیں ختنہ نہیں کر وایا ختنہ کا طریقہ ہم لوگوں سے آیا جو موسٰی سے قبل رہے تھے اس لئے کبھی تم لوگ بچے کی ختنہ سبت کے دن بھی کرتے ہو ۔ 23 اس سے ظا ہر ہوتا ہے کہ ایک آدمی سبت کے دن ختنہ کرکے موسٰی کی شریعت کو پورا کرتا ہے اور اگر میں سبت کے دن کسی کو شفاء دیتا ہوں تو پھر کیوں غصہ کرتے ہو ؟ 24 اس قسم کا محاسبہ (جانچنے کا طریقہ )چھوڑ دو راستی سے ہر چیز کا محاسبہ کرو کہ سچ کیا ہے۔” 25 تب کچھ لوگو ں نے جو یروشلم میں رہتے تھے کہا ، “یہی وہ شخص ہے جسے مار ڈالنے کے کو شش کی جا رہی ہے؟ 26 لیکن وہ اس جگہ تعلیمات دیتا ہے جہاں اس کو ہر کو ئی دیکھ اور سن سکے ۔ مگر کسی نے اسکو تعلیمات دینے سے نہیں رو کا ۔ ہو سکتا ہے کہ قائدین نے فیصلہ کیا ہو کہ وہ حقیقت میں مسیح ہے۔ 27 لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کا مکان کہاں ہے اور حقیقی مسیح جب آ ئے گا کو ئی نہ جانے گا کہ وہ کہاں سے آئے گا۔” 28 یسوع اس وقت بھی ہیکل میں تعلیمات دے رہے تھے اس نے کہا ، “ہاں تم مجھے جانتے ہو اور یہ بھی جا نتے ہو کہ میں کہاں سے آ یا ہوں لیکن میں اپنی مرضی سے نہیں آیا میں تو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں جو سچاّ ہے تم اس کو نہیں جانتے۔ 29 ، “لیکن میں اسے جانتا ہوں کیوں کہ میں اس سے ہوں اور اسی نے مجھے بھیجا ہے۔” 30 جب یسوع نے یہ سب کہا تو لوگوں نے یسوع کو پکڑ نے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی یسوع کو چھونے تک کے لا ئق نہ تھا ۔اسلئے کہ یسوع کو قتل کر نے کا ابھی صحیح وقت آیا ہی نہیں تھا 31 لیکن بہت سا رے آدمی یسوع پر ایمان لا چکے تھے۔ لوگوں نے کہا ہم اب بھی یسوع کے منتظر ہیں کہ وہ آئے جب وہ آئے گا تو کیا اور معجزے دکھا ئے گا ؟بہ نسبت اس آدمی کے جو دکھا یا تھا۔نہیں! یہی آدمی مسیح ہے ۔ 32 فر یسیوں نے یسوع کے بارے میں ان باتوں کو کہتے ہو ئے سُنا۔ اس لئے کا ہنوں کے رہنما نے اور فریسیوں نے ہیکل کے حفا ظتی دستہ کو یسوع کی گرفتا ری کے لئے بھیجا۔ 33 تب یسوع نے کہا ، “میں کچھ دیر تم لوگوں کے ساتھ رہوں گا اس کے بعد میں اس کے پاس جا ؤں گا جس نے مجھے بھیجا ہے ۔ 34 تم مجھے تلا ش کرو گے لیکن مجھے نہیں پا ؤگے ۔ اور میں جہاں بھی ہوں وہاں تم نہیں آسکو گے ۔” 35 یہودیوں نے ایک دوسرے سے پوچھا ، “آ خر یہ آدمی کہاں جا ئے گا جسے ہم نہ پا سکیں گے کیا یہ آدمی یو نان کے شہروں کو جا ئے گا جہاں ہما رے لوگ رہتے ہیں؟ کیا وہ یونان جائے گا جہاں ہمارے لوگ ہیں۔کیا وہ ہما رے لوگوں کو یونان میں تعلیم دیگا ۔ 36 یہ آدمی کہتا ہے کہ تم لوگ مجھے تلاش کرو گے لیکن پا نہ سکو گے اور یہ بھی کہتا ہے جہاں میں ہوں وہا ں تم نہیں آسکو گے ۔ اس کے ایسا کہنے کا کیا مطلب ہے ؟” 37 تقریب کا آخر دن جو اہم دن تھا آگیا۔اس دن یسوع نے کھڑے ہو کر لوگوں سے بلند آواز میں کہا، ”جو بھی پیاسا ہے اس کو میرے پاس آ نے دو کہ اس کی پیاس بجھے۔ 38 جو آدمی مجھ پر ایمان لا ئے گا اس کے دل سے آب حیات بہے گا ۔ ایسا صحیفوں میں لکھا ہے۔” 39 یسوع نے یہ بات مقدس روح کے بارے میں کہی کیوں کہ یہ روح اب تک نازل نہیں ہو ئی تھی۔ کیوں کہ یسوع کی اب تک موت نہیں ہوئی تھی اور اسے جلا ل کے ساتھ اٹھا یا نہیں گیاتھا۔ لیکن بعد میں جو لوگ یسوع پر ایمان لا ئے ان پر روح نا زل ہو گی ۔ 40 جب لوگوں نے یہ باتیں سنی تو کہا ، “یہ آدمی سچ مچ نبی ہے ۔” 41 دوسروں نے کہا ، “یہ مسیح ہے” کچھ اور لوگوں نے کہا ، “مسیح گلیل سے نہیں آئیگا۔ 42 صحیفوں میں ہے کہ مسیح داؤد کے خا ندان سے ہوگا اور صحیفہ کہتا ہے بیت اللحم سے آئیگا جہاں داؤد رہتا تھا۔ 43 اس طرح لوگوں نے یسوع کے متعلق آپس میں کسی بات پر اتفاق نہیں کیا۔ 44 کچھ لوگ یسوع کو گرفتار کر نا چا ہتے تھے لیکن کوئی بھی ایسا نہ کر سکا ۔ 45 لہٰذا ہیکل کے حفاظتی دستہ کا ہنوں کے رہنما اور کاہنوں و فریسیوں کے پاس واپس گیا اور فریسیوں اور کاہنوں نے پو چھا، ”تم نے یسوع کو کیوں نہیں پکڑا ؟” 46 ہیکل کے حفاظتی دستہ نے جواب دیا، ”اس نے ایسی باتیں کہیں جو کسی انسان نے آج تک نہیں کہیں۔” 47 فریسیوں نے کہا، ”یسوع نے تمہیں بھی گمراہ کر دیا ۔ 48 کیا کوئی سردار اس پر ایمان لا یا ہے یا نہیں۔ کیا کوئی فریسیوں میں ایمان لائے ہیں ؟ نہیں۔ 49 مگر وہ لوگ جو شریعت سے واقف نہیں وہ خدا کے لعنتی ہیں۔” 50 لیکن نیکو دیمس جو ان میں سے تھا اور اس کا تعلق جماعت سے ہی تھا۔ وہی ایک ایسا تھا جو یسوع کو پہلے ہی دیکھ چکا تھا کہا ۔ 51 ، “ہماری شریعت یہ اجا زت نہیں دیتی کہ کسی شخص کو اس وقت تک مجرم نہ ما نیں جب تک یہ نہ جان لیں کہ وہ کیا کہتا ہے جب تک ہمیں یہ نہ معلوم ہو کہ اس نے کیا کیا ہے۔” 52 یہودی سردار نے کہا ، “کیا تمہارا تعلق بھی گلیل سے ہے۔ صحیفوں میں تلا ش کرو تب تمہیں معلوم ہوگا کہ کو ئی بھی نبی گلیل سے نہیں آئے گا ۔” 53 تمام یہودی سردار نکلے اور گھر کو روانہ ہوئے۔ 1 یسوع زیتون کی پہا ڑی پر چلے گئے۔ 2 صبح سویرے وہ پھر سے ہیکل میں آگیا۔ تمام لوگ یسوع کے پاس جمع ہوئے۔ تب وہ بیٹھ گئے اور لوگوں کو تعلیم دینے لگے۔ 3 شریعت کے استاد اور فریسیوں نے وہاں ایک عورت کو لا ئے جو زنا کے الزام میں پکڑی گئی۔ اس کو ڈھکیل کر لوگوں کے سا منے کھڑا کیا گیا۔ 4 یہودیوں نے کہا ، “اے استاد یہ عورت زنا کے فعل میں پکڑی گئی ہے۔ 5 موسیٰ کی شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس عورت کو جو ایسا گناہ کرے اسے سنگسار کیا جائے۔ اب آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟” 6 ان لوگوں نے یہ سوال محض اسے آ ز ما نے کے لئے پوچھ رہے تھے تا کہ اس طرح اس کی کوئی غلطی پکڑیں لیکن یسوع نے جھک کر ز مین پر انگلی سے کچھ لکھنا شروع کیا ۔ 7 تب یہودی سردار یسوع سے اپنے سوال کے متعلق اصرار کر نے لگے تب یسوع اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا ، “یہاں تم میں کو ئی ایسا آدمی ہے جس نے گناہ نہ کیا ہو اور ایسا آدمی اگر ہے تو اس عورت کو پتھر مارنے میں پہل کرے ۔” 8 اور یسوع نے دوبارہ جھک کر زمین پر کچھ لکھا۔ 9 یہ سن کر سب کے سب چھوٹے بڑے ایک ایک کر کے وہاں سے کھسکنے لگے یہاں تک کہ یسوع وہاں اکیلا رہ گیا اور وہ عورت بھی وہیں کھڑی رہ گئی۔ 10 یسوع دوبارہ کھڑا ہوا اور کہا ،”اے خا تون وہ تمام لوگ کہاں ہیں؟ کیا کسی نے بھی تجھے مجرم قرارنہیں دیا؟” 11 عورت نے جواب دیا ، “کسی نے بھی کچھ نہیں کہا ؟” تب یسوع نے کہا ، “میں بھی تم پر الزام کا حکم نہیں لگاتا ہوں۔ تم یہاں سے چلی جا ؤ اور آئندہ کوئی گناہ نہ کرنا ۔ 12 بعد میں یسوع نے دوبارہ لوگوں سے کہا ، “میں دنیاکا نور ہوں جو بھی میری پیر وی کرے گا وہ اندھیرے میں نہیں چلے گا۔ بلکہ زندگی کا نور پا ئے گا ۔” 13 لیکن فریسیو ں نے یسوع سے پوچھا ،”تم جب بھی کچھ کہتے ہو تو سب کچھ اپنی گواہی میں کہتے ہو تمہا ری گواہی قا بل ِ قبول نہیں اس لئے ہم اس کو قبول نہیں کرتے۔” 14 یسوع نے کہا ، “ہاں یہ سب کچھ میں اپنے متعلق گواہی میں کہتا ہوں کیوں کہ یہی سچ ہے اور لوگ اس پر یقین کرتے ہیں کیوں کہ میں جانتا ہوں میں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جاؤں گا میں تم لوگوں کی مانند نہیں ہوں تم نہیں جانتے کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جا ؤں گا۔ 15 تم لوگ اپنی انسا نی صلا حیت کے مطابق میرا فیصلہ کر تے ہو۔ میں کسی کا ایسا کوئی فیصلہ نہیں کر تا ہوں جیسا کہ تم کر تے ہو۔ 16 اور اگر میں کوئی فیصلہ کروں تو وہ فیصلہ سچاّ ہوگا۔کیوں کہ جب میں کچھ فیصلہ کر تا ہوں تو میں اکیلا نہیں ہوتا ۔بلکہ میرا باپ جس نے مجھے بھیجا ہے وہ بھی میرے ساتھ ہو تا ہے ۔ 17 تمہا ری شریعت یہ کہتی ہے کہ جب د و گواہ کسی کے بارے میں کچھ کہیں تو اس کو سچ مانو اور ان کی گوا ہی کو قبول کرو۔ 18 میں اسی طرح انہیں میں سے ایک گواہ ہوں جو اپنی گوا ہی دیتا ہوں اور میرا باپ جس نے مجھے بھیجا ہے وہ دوسرا گواہ ہے ۔” 19 لوگوں نے پوچھا ، “تمہارا باپ کہاں ہے ؟” یسوع نے جواب دیا ، “تم نہ مجھے جانتے ہو اور نہ ہی میرے باپ کو جب تم لوگ مجھے جان جاؤگے تب میرے باپ کو بھی جا ن جا ؤگے۔” 20 یسوع یہ سا ری باتیں ہیکل میں تعلیم دیتے ہوئے کہہ رہے تھیاس وقت وہ بیت المال کے قریب تھے اور کسی نے اس کو پکڑا نہیں کیوں کہ اس کا وقت نہیں آیا تھا۔ 21 دوبارہ یسوع نے لوگو ں سے کہا ، “میں تمہیں چھوڑ جا تا ہوں اور تم مجھے ڈھونڈ تے رہوگے اور اپنے گنا ہوں میں ہی مرو گے تم وہاں نہیں آسکتے جہاں میں جا رہا ہوں۔ 22 پھر یہودیوں نے آپس میں کہا ، “کیا یسوع اپنے آپ کو مار ڈا لے گا ؟ کیوں کہ اسی لئے اس نے کہا جہاں میں جا رہا ہوں وہاں تم نہیں آ سکتے ۔ 23 لیکن یسوع نے ان یہودیوں سے کہا تم لوگ نیچے کے ہو اور میں اوپر کا ہوں۔ تم اس دنیا سے تعلق رکھتے ہو لیکن میں اس دنیا سے تعلق نہیں رکھتا۔ 24 میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ تم اپنے گنا ہوں کے ساتھ مروگے ۔یقیناً تم اپنے گنا ہوں کے ساتھ مروگے اگر تم نے ایمان نہیں لا یا کہ میں وہی ہوں۔ 25 تب یہودیوں نے پوچھا ، “پھر تم کون ہو ؟”یسوع نے جواب دیا ، “میں وہی ہوں جو شروع سے تم سے کہتا آیا ہوں۔ 26 مجھے تمہا رے بارے میں بہت کچھ کہنا ہے اور فیصلہ کر نا ہے لیکن میں لوگوں سے وہی کہتا ہوں جو میں نے اس سے سنا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور وہ سچ کہتا ہے ۔” 27 لوگ سمجھے نہیں کہ یسوع کس کے متعلق کہہ رہے ہیں۔ یسوع ان سے باپ کے متعلق کہہ رہا تھا۔ 28 اسی لئے لوگوں نے یسوع سے کہا ، “تم لوگ ابن آدم کو اوپر بھیجو گے تب تمہیں معلوم ہوگا میں وہی ہوں۔ جو کچھ میں کرتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کرتا ہوں بلکہ جو کچھ مجھے باپ نے سکھا یا وہی کہتا ہوں۔ 29 اور جس نے مجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے میں وہی کر تا ہوں۔ جس سے وہ خوش ہو اسی لئے اس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا ۔” 30 جب یسوع یہ باتیں کہہ رہے تھے تو کئی لوگ اس پر ایمان لا ئے ۔ 31 یسوع نے ان یہودیوں سے جو اس پر ایمان لا ئے تھے کہا ، “اگر تم لوگ میری تعلیمات پر قائم رہو تو حقیقت میں میرے شاگرد ہو گے ۔” 32 ، “تب ہی تم سچا ئی کو جان لوگے اور یہ سچا ئی ہی تمہیں آزاد کریگی۔” 33 یہودیوں نے جواب دیا ، “ہم ابراہیم کے لوگ ہیں اور کسی کی بھی غلا می میں نہیں رہے اور تم یہ کیوں کہتے ہو کہ آ زاد ہو جاؤگے۔” 34 یسوع نے جواب دیا ، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ہر وہ آدمی جو گناہ کر تا ہے غلام ہے گناہ اس کا آقا ہے 35 ایک غلام اپنے خاندان کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہ سکتا لیکن ایک بیٹا اپنے خاندان کے ساتھ ہمیشہ رہ سکتا ہے ۔ 36 اس لئے اگر بیٹا تم کو آزاد کرتا ہے تو تم حقیقت میں آزاد ہو ۔ 37 میں جانتاہوں کہ تم لوگ ابرا ہیم کی نسل سے ہو تم لوگ مجھے مار ڈالنا چاہتے ہو کیوں کہ تم لوگ میری تعلیم پر عمل کر نا نہیں چا ہتے۔ 38 میں تم لوگوں سے وہی کہتا ہوں جسے میرے باپ نے مجھے دکھا یا ہے ۔ لیکن تم صرف وہ کر تے ہو جو تم نے تمہا رے باپ سے سنا ہے ۔” 39 یہودیوں نے کہا ، “ہما را باپ ابراہیم ہے ۔” یسوع نے کہا ، “اگر تم حقیقت میں ابراہیم کے بیٹے ہو تو وہی کروگے جو ابرا ہیم نے کیا۔ 40 میں وہی آدمی ہوں جس نے تم سے سچ کہا ہے جو اس نے خدا سے سناُ: لیکن تم لوگ میری جان لینا چا ہتے ہو اور ابراہیم نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا ۔” 41 اور جو تم کر رہے ہو وہ ایسا ہے جیسا کہ تمہا رے باپ نے کیا ہے۔” لیکن یہودیوں نے کہا ، “ہم ایسے بچے نہیں جنہیں یہ معلوم نہ ہو کہ ہما را باپ کون ہے ہما را ایک باپ ہے یعنی خدا ۔” 42 یسوع نے ان یہودیوں سے کہا ،”اگر خدا ہی حقیقت میں تمہارا باپ ہے تو تم لوگ مجھ سے بھی محبت رکھتے کیوں کہ میں خدا ہی کی طرف سے آیا ہوں اور اب میں یہاں ہوں اور میں اپنے آپ سے نہیں آیا بلکہ خدا نے مجھے بھیجا ہے ۔ 43 تم یہ باتیں جو میں کہتا ہوں نہیں سمجھتے کیوں کہ تم میری تعلیم کو قبول نہیں کر تے ۔ 44 شیطان ابلیس تمہارا باپ ہے اور تم اس کے ہو اور اپنے باپ کی خوا ہش کو پورا کرنا چا ہتے ہو ابلیس شروع سے ہی قاتل ہے کیوں کہ وہ سچا ئی کا مخا لف ہے اس میں سچا ئی نہیں وہ جو کہتا ہے جھوٹ کہتا ہے ابلیس جھوٹا ہے اور جھوٹوں کا باپ ہے ۔ 45 میں سچ کہتا ہوں اس لئے تم مجھ پر یقین نہیں کرتے ۔ 46 تم میں سے کو ن ہے جو میرے گناہ کو ثا بت کرے؟ اگر میں سچ کہتا ہوں تو تم میرا یقین کیوں نہیں کرتے ؟۔ 47 وہ جو خدا کا ہو تا ہے وہ خدا کی سنتا ہے لیکن تم خدا کے نہیں ہو اور یہی وجہ ہے کہ تم خدا کو نہیں مان تے۔ 48 یہودیوں نے کہا ، “ہمارا کہنا یہ ہے کہ تم سامری ہو اور یہ کہ تم پر بدروح کا اثر ہے جو تمہیں پا گل کر چکی ہے، کیا ہمارا ایسا کہنا سچ نہیں؟” 49 یسوع نے جواب دیا ، “مجھ میں کو ئی بدروح نہیں میں اپنے باپ کی عزت کرتا ہوں لیکن تم لوگ میری عزت نہیں کر تے ۔ 50 میں اپنی بزرگی نہیں چا ہتاہاں ایک وہ ہے جو مجھے بزرگی دینا چاہتا ہے وہی ایک ہے جو فیصلہ کر ے گا۔ 51 میں سچ کہتا ہوں اگر کوئی آدمی میری تعلیمات کی اطاعت کرتا ہے تو وہ کبھی نہیں مرے گا ۔” 52 یہودیوں نے یسوع سے کہا ، “ہمیں معلو م ہے کہ تجھ میں بدروح ہے حتیٰ کے ابراہیم اور دوسرے نبی بھی مر گئے لیکن تم کہتے ہو کہ جس نے تمہا ری تعلیمات کی اطا عت کی وہ کبھی نہ مرے گا” 53 کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم ہما رے باپ ابرا ہیم سے زیادہ عظیم ہو ابراہیم کا اور دوسرے نبیوں کا بھی انتقال ہوا!تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو ؟۔” 54 یسوع نے جواب دیا ، “اگر میں اپنے آپ کی عزت کروں تو میری عزت کچھ بھی نہیں۔ وہ جو عزت دیتا ہے وہ میرا باپ ہے اور جسے تم کہتے ہو کہ وہ تمہارا خدا ہے ۔ 55 لیکن حقیقت میں تم ا سے نہیں جانتے اور میں اسے جانتا ہوں اگر میں کہوں کہ اسے نہیں جانتا تو میں بھی تمہاری طرح جھوٹا ہوں مگر میں اسے جانتا ہوں اور جو کچھ وہ کہے اس پر عمل کرتا ہوں۔ 56 تمہا را باپ ابراہیم میرے آنے کا دن دیکھنے کے لئے بہت خوش تھا چنانچہ اس نے دیکھا اور خوش ہوا ۔” 57 یہودیوں نے یسوع سے کہا ، “کیا تم نے ابراہیم کو دیکھا ابھی تو تم پچاس برس کے بھی نہیں ہو۔ اور (تم کہتے ہو ) کہ تم نے ابراہیم کو دیکھا ہے۔” 58 یسوع نے جواب دیا ، “میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ ابراہیم کی پیدا ئش سے قبل میں ہوں۔” 59 جب یسوع نے کہا تو ا ن لوگوں نے پتھر اٹھا یا تا کہ اس کو مارے لیکن وہ چھپ کر ہیکل سے نکل گیا ۔” 1 جب یسوع جا رہے تھے تو اس نے ایک اندھے آدمی کو دیکھا جوپیدائشی اندھا تھا۔ 2 یسوع کے شاگردوں نے اس سے پوچھا ، “اے استاد یہ آدمی پیدائشی اندھا ہے لیکن یہ کس کے گناہ کی سزا ہے کہ وہ اندھا پیدا ہوا ہے کیا اس کے اپنے گناہ میں یا پھر اس کے والدین کے گنا ہ میں؟” 3 یسوع نے جواب دیا ، ، “یہ نہ اس کا گناہ تھا اور نہ ہی اس کے والدین کا یہ اس لئے اندھا پیدا ہوا تھا تا کہ جب میں اس اندھے کو بینا ئی دوں تو لوگ خدا کی طا قت کو جان سکیں۔ 4 اب جبکہ یہ دن کا وقت ہے ہمیں اس کے کام کو جا ری رکھنا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے رات آرہی ہے اور کوئی آدمی رات میں کام نہیں کر سکتا۔ 5 اب جبکہ میں دنیا میں ہوں میں دنیا کا نور ہوں ۔” 6 یسوع نے یہ کہہ کر مٹی پر تھوکا اور اس مٹی کو گوندھا اور اس کو اندھے کی آنکھوں پر لگایا۔ 7 یسوع نے اس آدمی سے کہا ، “جا ؤ اور جا کر شیلوخ (یعنی بھیجا ہوا ) کے حوض میں دھو لے ۔ اس طرح وہ حوض میں گیا ۔ اس نے دھو یا اور واپس گیا ۔ اب وہ دیکھنے کے قابل ہوا۔ 8 اس سے پہلے لوگوں نے دیکھا تھا کہ وہ اندھا بھیک مانگا کر تا تھا ۔یہ لوگ اور اس اندھے کے پڑو سی نے کہا، ”دیکھو کیا یہ وہی نہیں جو بھیک مانگا کر تا تھا؟” 9 بعض نے کہا ، “ہاں یہ وہی ہے” لیکن کچھ دوسرے لوگوں نے کہا ،”نہیں یہ وہ اندھا نہیں مگر ایسا دکھا ئی دیتا ہے ۔”تب اس اندھے نے خود کہا ، “میں وہی اندھا ہوں جو پہلے اندھا تھا۔” 10 لوگوں نے پوچھا، ”پھر تیری بینا ئی کیسے واپس آ ئی۔ ؟” 11 اس آدمی نے کہا، ”وہ آدمی جسے لوگ یسوع کہتے ہیں اس نے مٹی اور لعاب کو ملا یا اور اس کو میری آنکھوں پر لگایا پھر اس نے کہا کہ میں شیلوخ میں جا کر آنکھیں دھولوں میں نے ویسا ہی کیا اور اب میں دیکھ سکتا ہوں۔” 12 لوگوں نے پوچھا، ”وہ آدمی کہاں ہے؟، “اس آدمی نے جواب دیا ، “میں نہیں جانتا۔” 13 تب لوگوں نے اس آدمی کو فریسیوں کے پاس لا یا اور کہا یہی وہ آدمی ہے جو پہلے اندھا تھا ۔ 14 یسوع نے مٹی اور لعاب کو ملا کر اس کی آنکھوں پر لگایا اور اس کو بینائی واپس دلا یا جس دن یسوع نے یہ کیا وہ سبت کا دن تھا۔ 15 فریسیوں نے اس آدمی سے پوچھا ، “تمہا ری بینا ئی کس طرح واپس آئی ؟” اس آدمی نے جواب د یا ، “یسوع نے میری آنکھوں پر مٹی لگائی اور آنکھیں دھو نے کو کہا جب میں نے آنکھیں دھو لیں تو مجھے بینا ئی مل گئی۔” 16 کچھ فریسیوں نے کہا، ”یہ آدمی سبت کے دن کی پابندی کو نہیں مانتا اس لئے وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ دوسروں نے کہا، ”لیکن جو آدمی گنہگار ہے وہ معجزہ کیسے کر سکتاہے” یہ یہودی آپس میں ایک دوسرے سے متفق نہیں تھے۔ 17 یہودیوں کے سردار نے اس آدمی سے دوبارہ پوچھا، ”اس آدمی نے تمہیں شفاء دی اور تم دیکھ سکتے ہو اس کے با رے میں تم کیا کہتے ہو ؟ ، “اس آدمی نے جواب دیا، ”وہ نبی ہے ۔” 18 یہودی اب بھی یقین نہیں کر رہے تھے کہ واقعی اس آدمی کے ساتھ ایسا کو ئی واقعہ ہوا ہے ۔ انہیں یہ بھی یقین نہیں تھا کہ وہ آدمی پہلے اندھا تھا اور اب بینا ہو گیا۔ 19 اس لئے انہوں نے اسکے والدین کو بلا کر پو چھا ، “کیا تمہا را بیٹا اندھا تھا؟ اور کیا تم کہتے ہو کہ وہ پیدائشی اندھا تھا اور اب کس طرح دیکھ سکتا ہے ؟ ، “ 20 اس کے والدین نے جواب دیا ہاں یہی ہما را بیٹا ہے اور یہ اندھا ہی پیدا ہوا تھا ۔ 21 لیکن ہم نہیں جانتے وہ اب کیسے بینا ہو گیا اور اس کو کس نے بینا ئی دی اسی سے پو چھو وہ بالغ ہے وہ اپنے بارے میں کہے گا ۔” 22 اس کے والدین نے یہودیوں کے سر دار کے ڈر سے ایسا کہا کیوں کہ یہودیوں نے فیصلہ کر لیا تھا جو بھی یسوع کو مسیح ما نے گا اس کو سزا دیں گے اور یہودی سر دار انہیں اپنی یہودی عبا دت گاہ میں دا خل نہیں ہو نے دیں گے ۔ 23 اسی لئے اس کے والدین نے کہا ، “وہ بالغ ہے اسی سے پو چھو۔” 24 چنانچہ یہودی سردار نے دو بارہ اس آدمی کو جو پہلے اندھا تھا بلا یا ، “اور کہا تو خدا کی حمد کر اور سچ بتا ہم تو جانتے ہیں کہ یہ آدمی گنہگار ہے ۔” 25 اس آدمی نے جواب دیا ،”میں یہ نہیں جانتا کہ وہ گنہگار ہے لیکن یہ جانتا ہوں کہ میں پہلے اندھا تھا اب دیکھ سکتا ہوں۔” 26 یہودی سردار نے پو چھا ، “اس نے تمہا رے ساتھ کیا کیا اور کس طرح تمہا ری آنکھوں کو شفاء دی ۔” 27 اس آدمی نے کہا ، “میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں لیکن تم لوگ سننا نہیں چاہتے پھر دوبارہ کیوں سننا چاہتے ہو ؟ کیا تم اس کے شاگرد ہو نا چاہتے ہو ؟” 28 یہودی سردار اس کا مذاق اڑا تے ہو ئے کہا تم ہی اس کے شاگرد ہو ہم تو موسیٰ کے عقیدت مند ہیں۔ 29 ہم یہ جانتے ہیں کہ خدا نے موسیٰ سے کلا م کیا تھا ہم نہیں جانتے کہ کہاں سے یہ آدمی آیا ہے ؟” 30 تب اس آدمی نے کہا ، “بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے آیا ہے مگر اس نے مجھے بینا ئی دی ۔ 31 ہم سب یہ جانتے ہیں کہ خدا گنہگاروں کی نہیں سنتا لیکن خدا ان کی سنتا ہے جو اس کی عبادت کر تے ہیں اور اس کا حکم مانتے ہیں۔ 32 یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نے ایسے آدمی کو جو پیدا ئشی اندھا تھا اس کو بینا ئی دی ہے ۔ 33 وہ آدمی خدا کی طرف سے آیا ہے اگر وہ خدا کی طرف سے نہیں آیا ہو تا تو وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتا۔” 34 یہودی سردا ر نے کہا، ”تو خود گنہگار پیدا ہوا ہے تو ہم کو کیا سکھاتا ہے ؟” اور انہوں نے اسے باہر نکال دیا ۔ 35 یسوع نے سنا کہ یہودی سردار نے اس آدمی کو پھینک دیا اس لئے جب اس نے اسکوپا یا تو پو چھا ، “کیا تم ابن آدم پر ایمان رکھتے ہو۔ ؟” 36 اس آدمی نے پو چھا ،”ابن آدم کو ن ہے مجھے بتائیے تا کہ میں اس پر ایمان لاؤأں” 37 یسوع نے کہا ،”تم اسکو دیکھ چکے ہو اور جو تجھ سے باتیں کرتا رہا وہی ابن آدم ہے ۔” 38 اس آدمی نے جواب دیا ، “اے خدا وند ہاں میں ایمان لایا ، “تب وہ آدمی جھک گیا اور یسوع کی عبادت کر نے لگا ۔ 39 یسوع نے کہا ، “میں اس دنیا میں فیصلہ کے لئے آیا ہوں ۔میں آیا ہوں تا کہ اندھوں کو بینائی ملے اور جو دیکھ کر بھی نہ سمجھے وہ اندھے رہینگے ۔” 40 چند فریسی جو یسوع کے قریب تھے سن کر کہا ، “کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم اندھے ہیں ؟” 41 یسوع نے کہا اگر تم حقیقت میں اندھے ہو تے تو گنہگار نہ ہو تے مگر اب یہ کہتے ہو کہ تم دیکھ سکتے ہو تو تم گنہگار ہو۔” 1 یسوع نے کہا ، “میں تم سے سچ کہتا ہوں اگر کوئی آدمی بھیڑ خانہ میں داخل ہوگا وہ دروازہ کے ذریعے آئیگا لیکن وہ کسی اور طرف سے چڑھکر آئے تو وہ چور ہے جو بھیڑ چرانے آ تا ہے۔ 2 لیکن جو دروا زہ سے داخل ہوگا وہ چرواہا ہے جو بھیڑوں کا نگہبان ہوگا ۔ 3 اور دربان اسکے لئے دروازہ کھول دیگا اور وہ چرواہا ہے اور بھیڑیں اپنے چر واہے کی آواز سنتی ہیں وہ اپنی بھیڑوں کو نام سے بلا کر لے جاتا ہے ۔ 4 جب وہ اپنی تمام بھیڑوں کو باہر نکال لیتا ہے تو وہ انکے آگے چلتا ہے اور بھیڑیں اسکے پیچھے چلتی ہیں کیوں کہ وہ اسکی آواز کو پہچانتی ہیں ۔ 5 اور بھیڑیں کسی غیر شخص کے پیچھے جسے وہ نہیں جانتیں نہیں جائیں گی ۔ وہ اس غیر آدمی سے دور بھا گے گی کیوں کہ وہ اسکی آواز کو نہیں پہچانتی ۔” 6 یسوع ان سے یہ قصّہ کہا ۔لیکن لوگ سمجھ نہیں سکے کہ اس قصّے کا کیا مطلب ہے ۔ 7 اس لئے یسوع نے ان سے دو بارہ کہا ، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں بھیڑوں کا در وازہ ہوں ۔ 8 اور جو کوئی مجھ سے پہلے آئے ہیں وہ چور اور ڈاکو تھے اور بھیڑوں نے انکی آواز نہ سنی ۔” 9 میں دروازہ ہوں اور جو کوئی میرے ذریعے داخل ہو گا وہی نجات پائیگا اور اندر باہر جا نے کا مستحق ہوگا اور جو کچھ وہ چاہے گا پا ئے گا ۔ 10 چور تو چرانے اور مارنے تباہ کر نے کے لئے آتا ہے ۔ لیکن میں زندگی دینے کے لئے آیا ہوں جو خوبی اور اچھا ئی سے بھر پور ہے ۔ 11 ، “میں ایک اچھا چرواہا ہوں اور اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کے لئے اپنی زندگی دیتا ہے ۔ 12 لیکن مزدور جسے بھیڑوں کی نگہداشت کے لئے اجرت دی جاتی ہے وہ چرواہے سے مختلف ہے ۔ اجرت پا نے والا مزدور بھیڑوں کا مالک نہیں ہو تا لہذا جب مزدور یہ دیکھتا ہے کہ بھیڑ یا آرہا ہے تو وہ بھاگ جا تا ہے اور بھیڑوں کو چھو ڑ دیتا ہے تب بھیڑیا حملہ کرتا ہے اور انہیں منتشر کر دیتا ہے ۔ 13 وہ مزدور اس لئے بھا گ جاتا ہے کہ وہ صرف ملازم ہے اور اسے بھیڑوں کی فکر نہیں ہو تی۔ 14 ، “میں اچھا چرواہاہوں میں بھیڑوں کو اسی طرح جانتا ہوں جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور میں باپ کو اور اسی طرح بھیڑیں بھی مجھے جانتی ہیں میں ان بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں ۔ 15 16 میری اور بھیڑیں بھی ہیں جو اس بھیڑ خانہ میں نہیں ہیں مجھے انکو بھی لا نا ہے ۔وہ میری آواز سنیں گی آئندہ ایک جھنڈ ہوگا اور انکا ایک چرواہا ہو گا ۔ 17 باپ مجھ سے محبت کرتا ہے اس لئے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں تا کہ اسکو پھر واپس لے سکوں ۔ 18 کوئی بھی مجھ سے میری جان چھین نہیں سکتا ۔بلکہ میں ہی اسے دیتا ہوں اور ایسا کر نے کا مجھے حق ہے اور اختیار ہے کہ واپس لوں یہ حکم مجھے میرے باپ نے دیا ہے ۔” 19 ان باتوں پر یہودی آپس میں ایک دوسرے سے متفق نہیں تھے ۔ 20 ان میں سے بہت سے یہودیوں نے کہا ، “اس میں بد روح آگئی ہے اور اسے دیوانہ بنا دی ہے کیوں اسے سنیں ۔” 21 لیکن کچھ یہودیوں نے کہا ، “ایک آدمی بد روح کے زیر اثر ہو ایسی باتیں نہیں کر سکتا ۔کیا ایک بد روح اندھے آدمی کو بینائی دے سکتی ہے” کبھی نہیں ۔” 22 جاڑے کا موسم تھا اور یروشلم میں نذر کی تقریب تھی ۔ 23 یسوع ہیکل کے سلیمانی برآمدہ میں تھا ۔ 24 یہودی یسوع کے اطراف جمع تھے اور انہوں نے کہا ، “کب تک تم ہمیں اپنے بارے میں تنگ کر تے رہو گے ؟اگر تم مسیح ہو تو ہمیں صاف صاف کہدو ۔” 25 یسوع نے جواب دیا میں تو تم سے کہہ چکا ہوں لیکن تم یقین نہیں کر تے میں اپنے باپ کے نام پر معجزہ دکھا تا ہوں وہ معجزے خود میرے گواہ ہیں کہ میں کو ن ہوں ۔ 26 لیکن تم لوگ مجھ پر یقین نہیں کر تے کیوں کہ تم میری بھیڑ میں سے نہیں ہو ۔ 27 میری بھیڑیں میری آواز پہچانتی ہیں میں انہیں جانتا ہو ں اور وہ میرے ساتھ چلتی ہیں ۔ 28 میں اپنی بھیڑوں کو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ کبھی بھی ہلاک نہیں ہونگی اور کو ئی بھی انہیں مجھ سے نہیں چھین سکتا ۔ 29 میرا باپ جس نے مجھے بھیڑیں دی ہیں وہ سب سے بڑا ہے ۔ کو ئی بھی آدمی میرے باپ کے ہاتھوں سے انہیں نہیں چھین سکتا ۔ 30 میرا باپ اور ہم ایک ہی ہیں ۔” 31 یہودیوں نے یسوع کو مار ڈالنے کے لئے پھر پتھّر اٹھا ئے ۔ 32 لیکن یسوع نے ان سے دو بارہ کہا ، “میں نے اپنے باپ کی طرف سے بہت اچھے کام کئے اور وہ تم سب دیکھ چکے ہو اور تم ان اچھے کاموں کی وجہ سے مجھے مارڈالنا چاھتے ہو ؟ ، “ 33 یہودیوں نے کہا ،”ہم تمہیں سنگسار کرنا چاہتے ہیں اسلئے نہیں کہ تم نے اچھے کام کئے بلکہ اس لئے کہ تم خدا سے گستاخی کرتے ہو ۔ تم تو صرف ایک آدمی ہو لیکن اپنے آپکو خدا کہتے ہو ۔ 34 یسوع نے جواب دیا ، “یہ تمہاری شریعت میں لکھا ہے ، “میں نے کہا کہ تم دیوتا ہو ۔” 35 جب کہ اس نے انہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا اور صحیفوں کا باطل ہو نا ممکن نہیں۔ 36 تم مجھ سے یہ کیوں کہتے ہو کہ میں خدا کے خلاف کہہ رہا ہوں۔ کیوں کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں میں ہی ایک ایسا ہوں خدا نے مجھے چن کر دنیا میں بھیجا۔ 37 اگر میں اپنے باپ کے مقاصد کو پو را نہیں کرتا تو مجھ پر ایمان مت لاؤ۔ 38 لیکن اگر میں وہی کروں جسے باپ نے کیا ہے تب تو تمہیں اس پر یقین کرنا چاہئے جو میں کرتا ہوں ۔ تم شاید مجھ میں یقین نہیں رکھتے ، لیکن جو چیزیں میں کرتا ہوں اس پر تمہیں یقین کر نا چاہئے ۔ تب تم جانو گے اور سمجھو گے کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں ہوں ۔” 39 یہودیوں نے دوبارہ یسوع کو گرفتار کر نے کی کوشش کی لیکن یسوع انکے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ 40 یسوع پھر دریائے یردن کے پار چلے گئے جہاں یوحنا بپتسمہ دیا کرتا تھا یسوع نے وہاں قیام کیا ۔ 41 کئی لوگ یسوع کے پاس آئے اور کہا ، “یوحنا نے کبھی کو ئی معجزہ نہیں دکھایا اور جو کچھ یوحنا نے اس آدمی کے متعلق کہا وہ سچ ہے ۔” 42 اور وہاں موجود لوگوں میں کئی لوگ یسوع پر ایمان لائے ۔ 1 بیت عنیاہ کے شہر میں ایک لعزر نا می آدمی تھا جو بیمار ہوا یہ وہی شہر تھا جہاں مریم اور اس کی بہن مار تھا رہتی تھیں۔ 2 یہ وہی مر یم تھی جس نے خدا وند یسوع پر عطر لگاکر اپنے بالوں سے اس کے پا ؤں پونچھی تھی۔ لعز ر مریم کا بھا ئی تھا جو بیمار تھا۔ 3 مریم اور مارتھا نے یسوع کو یہ پیغام بھیجی تھی کہ خداوند تمہا را عزیز دوست لعزر بیمار ہے ۔” 4 یسوع نے یہ سنُ کر کہا ، “یہ بیما ری اس کی موت کے لئے نہیں بلکہ یہ بیما ری خدا کا جلا ل ہے تا کہ اس کے ذریعہ خدا کے بیٹے کا جلا ل ظاہر ہو ۔” 5 یسوع ما رتھا اور اس کی بہن مریم اور لعزر کو عزیز رکھتا تھا۔ 6 جب یسوع نے سنا کہ وہ بیمار ہے تو وہ جس جگہ ٹھہرے تھے وہاں مزید دو دن رہے ۔ 7 تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ، “ہمیں یہوداہ کو وا پس جانا چاہئے ۔” 8 شاگردوں نے جواب دیا ، “اے استاد تھو ڑی دیر پہلے یہوداہ کے یہودی تو آپ کو سنگسار کر کے مار نا چاہتے تھے۔ اور انہوں نے ایسا کر نے کی کوشش کی ہے اور آپ واپس وہیں جانا چاہتے ہیں۔” 9 یسوع نے جواب دیا ، “دن کے بارہ گھنٹے روشنی رہتی ہے اگر کوئی دن کی روشنی میں چلے تو ٹھو کر سے نہیں گرے گا ۔ کیوں کہ وہ دنیا کی روشنی دیکھتا ہے ۔ 10 لیکن اگر کو ئی رات کوچلے تو وہ ٹھو کر سے گرتا ہے کیوں کہ روشنی نہ ہو نے کی وجہ سے دیکھ نہیں پاتا ۔” 11 یہ باتیں کہنے کے بعد یسوع نے کہا ، “ہما را دوست لعزر اس وقت سو رہا ہے ۔ لیکن میں وہا ں اسے جگا نے کے لئے جا رہا ہوں۔” 12 شاگردوں نے کہا ، “مگر اے خداوند وہ سو رہا ہے تو وہ اچھا ہو گا ۔” 13 یسوع نے اس کی موت کے بارے میں کہا لیکن شاگردوں نے سمجھا کہ فطری نیند کی با بت کہا ہے ۔ 14 تب یسوع نے صاف طور سے کہا ، “لعزر مرگیا ۔” 15 اور میں اس لئے خوش ہوں کہ میں وہاں نہ تھا میں تمہا رے لئے خوش ہوں۔ کیوں کہ اب تم مجھ پر ایمان لا ؤگے” اب ہم اس کے پاس چلیں۔” 16 تب تھا مس نے جو توام کہلا تا تھادوسرے شاگردوں سے کہا ، “ہم بھی یہوداہ جا ئیں گے اور یسوع کے ساتھ مریں گے ۔” 17 یسوع بیت عنیاہ پہنچے وہاں جا کر اسے معلوم ہوا کہ لعزر کو مرے ہوئے چار دن ہو گئے اور وہ قبر میں ہے ۔ 18 بیت عنیاہ یروشلم سے تقریباً دو میل دور تھا ۔ 19 کئی یہودی مریم اور مار تھا کو اسکے بھائی لعزر کی موت کے واقع پر تسلی دینے یروشلم سے آئے تھے۔ 20 مارتھا یسوع کے آنے کی خبر سن کر باہر اس سے ملنے گئی لیکن مریم گھر میں رہی۔ 21 مارتھا نے یسوع سے کہا ، “اے خداوند اگر تم یہاں ہو تے تو میرا بھائی نہ مر تا ۔ 22 اس کے باوجود میں جانتی ہوں کہ جو کچھ بھی تو خدا سے مانگے گا تو وہ تجھے دے گا ۔” 23 یسوع نے کہا ، “تمہا را بھا ئی دوبا رہ زندہ اٹھے گا ۔” 24 مارتھا نے کہا” میں جانتی ہوں کہ میرا بھا ئی زندہ اٹھے گا جب کہ دوسرے لوگ موت کے بعد اٹھا ئے جا ئیں گے ۔” 25 یسوع نے اس سے کہا ، “میں ہی حشر ہوں اور زندگی میں ہی ہوں جو لوگ مجھ پر ایمان لا ئیں گے حا لا نکہ وہ مریں گے مگر پھر بھی زندہ رہیں گے۔ 26 اور جو لوگ زندہ رہ کر مجھ پر ایمان لا ئے کیا وہ سچ مچ میں کبھی نہیں مریں گے ۔مارتھا کیا تم اس پر ایمان لا ؤگی؟” 27 مارتھا نے جواب دیا ،”ہاں اے خدا وند! میں ایمان لا تی ہوں کہ تم مسیح ہو ، خدا کا بیٹا مسیح جو دنیا میں آنے وا لے تھے۔” 28 اتنا کہہ کر مارتھا چلی گئی اور اپنی بہن مریم کو اکیلے لیجا کر کہی، ”استاد یہاں ہے اور وہ تمہارے بارے میں پو چھ رہے ہیں ۔” 29 جب مریم نے سنا تو وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہو ئی اور یسوع سے ملنے چلی گئی۔ 30 یسوع ابھی گاؤں میں نہیں پہونچے تھے وہ ابھی تک اسی مقام پر تھے جہاں مارتھا اسے ملی تھی۔ 31 یہودی جو ابھی تک مریم کے ساتھ گھر میں تھے اور اسکو تسلّی دے رہے تھے انہوں نے دیکھا مریم جلدی سے اٹھی اور گھر کے باہر چلی گئی ۔ انہوں نے سمجھا کہ وہ لعزر کی قبر کی طرف جا رہی ہے اور وہاں جاکر روئے گی اسلئے وہ اسکے پیچھے چلے ۔ 32 مریم اس مقام تک گئی جہاں یسوع تھے جب اس نے یسوع کو دیکھا، اس کی قدم بوسی کی اور کہا ،”خداوند اگر آپ یہاں ہو تے تو میرا بھا ئی نہ مرتا۔” 33 یسوع نے دیکھا مریم رو رہی تھی اور جو یہودی اسکے ساتھ آئے تھے وہ بھی رو رہے تھے ۔ یسوع اپنے دل میں بہت رنجیدہ ہوا وہ پریشان ہو گئے۔ 34 یسوع نے پو چھا ،”تم نے لعزر کو کہاں رکھا ہے؟ ”انہوں نے کہا اے خدا وند! آئیے اور دیکھئے۔ 35 یسوع روئے۔ 36 یہودیوں نے کہا، ”دیکھو !یسوع لعزر کو بہت چاہتا تھا۔” 37 لیکن چند یہودیوں نے کہا، ”یسوع نے اندھے کو بینائی دی ۔ پھر لعزر کو کچھ نہ کچھ کر کے اس کو مر نے سے کیوں نہیں روکا ؟” 38 یسوع پھر رنجیدہ ہو گئے۔ یسوع لعزر کے قبر پر آیا ۔ یہ ایک غار تھا اور پتھر سے ڈھکا ہوا تھا ۔ 39 یسوع نے کہا ، “پتھر کو ہٹا ئے” مارتھا نے کہا، ”لیکن اے خدا وند لعزر کو مرے ہو ئے چار دن ہو گئے اور اس سے بد بو آرہی ہے ۔” مارتھا مرے ہو ئے لعزر کی بہن تھی۔ 40 یسوع نے مارتھا سے کہا ، “یاد کرو میں نے تم سے کیا کہا تھا میں نے کہا تھا اگر تم ایمان لاؤ گی تو خدا کا جلال دیکھو گی۔” 41 تب انہوں نے غار کے داخلہ کا پتھر ہٹایا تب یسوع نے دیکھ کر کہا ، “اے باپ میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تو نے میری سن لی۔ 42 میں جانتا ہوں کہ تو ہمیشہ میری سنتا ہے مگر میں نے یہ اس لئے کہا کہ آس پاس جو لوگ کھڑے ہیں اور وہ ایمان لے آئیں اس بات پر کہ تو نے مجھے بھیجا ہے ۔” 43 اتنا کہہ کر یسوع نے بلند آواز سے پکا رے ، “لعزر باہر نکل آ ، “ 44 مردہ شخص باہر آیا اسکے ہاتھ پاؤں کفن میں لپٹے ہو ئے تھے اسکا چہرہ رومال سے ڈھکا ہوا تھا ۔ 45 وہاں کئی یہودی تھے جو مریم سے ملنے آئے تھے ۔ جنہوں نے یسوع کا کارنامہ دیکھا تو ایمان لا ئے ۔ 46 ان میں سے چند یہودی فریسیوں کے پاس گئے اور جو کچھ دیکھا وہ سب کہا ۔ 47 تب سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کرکے کہا،”ہمیں کیا کرنا ہوگا یہ آدمی تو کئی معجزے دکھا رہا ہے ۔ 48 اگر ہم خاموش رہیں اور اسے اسی طرح کرنے دیں گے تو سب لوگ جو اس پر ایمان لائیں گے پھر روم کے لوگ آکر ہماری قوم اور ہیکل کو تباہ کردینگے ، “۔ 49 ان میں سے کائفا نامی شخص نے جو اس سال اعلیٰ کاہن تھا کہا ، “تم لوگ کچھ نہیں جانتے۔ 50 بہتر ہے کہ تم میں سے ایک آدمی قوم کے واسطے مر جائے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو لیکن تم لوگ یہ نہیں سمجھتے ۔” 51 کائفا نے خود نہیں سوچا ۔ وہ اس سال اعلیٰ کاہن تھا اور اسی لئے وہ پیشین گوئی کر رہا تھا کہ یسوع یہودی قوم کے لئے مریں گے ۔ 52 ہاں یسوع یہودی قوم کے لئے جان دیں گے ۔ وہ خدا کے دوسرے فرزندوں کے لئے بھی مریں گے جو ساری دنیا میں بکھرے ہو ئے ہیں۔ وہ ان سبھوں کو جمع کرکے ایک بنانے کے لئے مریں گے ۔ 53 اس دن سے یہودی سردار نے منصوبہ ترتیب دینا شروع کیا کہ کس طرح یسوع کو قتل کریں۔ 54 اس وجہ سے یسوع اعلانیہ طور پر ان لوگوں کے ساتھ سفر کرنا ترک کیا ۔یسوع یروشلم سے روانہ ہو کر ریگستان کے قریب ایک جگہ ٹھہر گئے اسکا نام ا فرائم تھا وہاں یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ ٹھہرے رہے ۔ 55 ان دنوں یہودیوں کی فسح کی تقریب قریب تھی کئی لوگ فسح سے پہلے یروشلم گئے تا کہ اپنے آپ کو پاک کر لیں ۔ 56 لوگ یسوع کو تلاش کر رہے تھے وہ ہیکل میں کھڑے ہو ئے تھے اور آپس میں ایک دوسرے سے پو چھ رہے تھے کہ” تم کیا سمجھتے ہو کیا وہ تقریب پر آئینگے ؟” 57 لیکن سردار کاہنوں اور فریسیوں نے یسوع کے متعلق ایک خاص حکم جاری کیا انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو پتہ چل جا ئے کہ یسوع کہاں ہے تو اسکی اطلاع دینی چاہئے تا کہ سبھی سردار کا ہن اور فریسی اسکو گرفتار کر سکیں ۔ 1 فسح کی تقریب سے چھ دن پہلے یسوع بیت عنیاہ گئے جہاں لعزر رہتا تھا اور جس کو یسوع نے موت سے زندہ کیا تھا ۔ 2 بیت عنیاہ میں ان لوگوں نے یسوع کے لئے شام کا کھا نا تیار کیا اور ماتھا خدمت میں تھی لعزر ان میں شامل تھا جو یسوع کے ساتھ کھا نے بیٹھے ہو ئے تھے ۔ 3 مریم نے جٹا ماسی کا خالص اور بیش قیمت عطر یسوع کے پاؤں پر چھڑکا پھر اسکے پاؤں کو اپنے بالوں سے پونچھا اور سارے گھر میں عطر کی خوشبو پھیل گئی ۔ 4 یہوداہ اسکریوتی بھی وہاں تھا جو یسوع کے شاگردوں میں تھا جو بعد میں یسوع کا مخا لف بن گیا تھا ۔ یہوداہ نے کہا ۔، 5 ، “یہ عطر کی قیمت تین سو چاندی کے سکوں کی ہو گی اسکو فروخت کر کے ان پیسوں کو غریبوں میں تقسیم کر دیا جاتا۔” 6 یہوداہ کو غریبوں کی فکر نہ تھی اور اس نے یہ بات اس لئے کہی کیوں کہ وہ ایک چور تھا اور وہ ان میں سے تھا جنکے پاس ان لوگوں کی دی ہوئی رقم کی تھیلی ہو تی تھی۔ اور یہودا ہ کو جب بھی موقع ملتا اس میں سے چرا لیتا تھا۔ 7 یسوع نے کہا ، “اسے مت روکو یہ اس کے لئے صحیح ہے کہ وہ ایسا کرے اور یہ میرے دفن کی تیار یاں ہیں۔ 8 کیوں کہ غریب تو تمہا رے ساتھ ہمیشہ رہیں گے لیکن میں تمہا ر ے پاس نہیں رہوں گا ۔” 9 کئی یہودیوں نے سنا کہ یسوع بیت عنیاہ میں ہیں چنانچہ وہ ان لوگوں کو دیکھنے گئے اور ساتھ ہی لعزر کو بھی وہی لعزر جسے یسوع نے مر دہ سے زندہ کئے تھے۔ 10 اس طرح کا ہنوں کے رہنما نے لعزر کو بھی مار دینے کا منصوبہ بنایا۔ 11 لعزر کی وجہ سے کئی یہودی اپنے سردار کو چھوڑ رہے تھے اور یسوع پر ایمان لا رہے تھے۔اسی لئے یہودی سرداروں نے لعزر کو مارنے کا منصوبہ بنایا ۔ 12 دوسرے دن لوگوں نے سنا کہ یسوع یروشلم آ رہے ہیں ۔ یہ لوگ فسح کی تقریب پر یروشلم آئے ہو ئے تھے۔ 13 ان لوگوں نے کھجور کی ڈالیاں لیں اور یسوع سے ملنے چلے اور پکارنے لگے، 14 یسو ع کو گدھا ملا اور وہ اس پر سوار ہو ئے۔ جیسا کہ صحیفہ کہتا ہے۔ 15 ، “اے شہر صیون مت ڈر 16 اس وقت یسوع کے شاگردوں نے ان باتوں کو نہیں سمجھا لیکن جب یسوع اپنے جلال پر آئے تو انہیں یاد آیا کہ سب کچھ اسی کے متعلق لکھا گیا تب شاگردوں نے سمجھا اور یاد کیا کہ لوگوں نے کیا سلوک کیا ہے۔ 17 اس وقت یسوع نے لعزر کو زندہ کیا تو کئی لوگ اس کے ساتھ تھے اور وہ اس خبر کو پھیلا رہے تھے ۔ 18 اسی وجہ سے کئی لوگ یسوع سے ملنے گئے کیونکہ انہوں نے سنا تھا کہ یسوع نے لعز رکے ساتھ معجزہ دکھا یا ۔ 19 تب فریسیوں نے ایک دوسرے سے کہا ، “دیکھو ہمارا منصوبہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا ہے تمام لوگ اسکی پیروی کر رہے ہیں ۔” 20 و ہیں پر چند یونانی لوگ بھی تھے جو فسح کی تقریب کے موقع پر عبادت کرنے آئے تھے ۔ 21 یہ یونانی لوگ فلپس کے پاس گئے فلپس بیت صیدا گلیل کا رہنے والا تھا اور اس سے کہا ،”ہم یسوع سے ملنا چاہتے ہیں ۔” 22 فلپس نے اندر یاس سے کہا ، “تب فلپس اور اندریاس دونوں نے یسوع سے کہا ۔ 23 یسوع نے ان سے کہا وقت آگیا ہے کہ ابن آدم جلال پا نے والا ہے۔ 24 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ گیہوں کا ایک دا نہ زمین پر گر کر مر جا تا ہے تب ہی زمین سے کئی اور دانے پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر وہ نہیں مرتا تو پھر وہ ایک ہی دانہ کی شکل میں ہی رہتا ہے ۔ 25 جو شخص اپنی ہی جان کو عزیز رکھتا ہے وہ کھو دیتا ہے لیکن جو شخص اس دنیا میں اپنی زندگی کی پرواہ نہیں کر تا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے وہ ہمیشہ کی زندگی پاتا ہے ۔ 26 جو شخص میری خدمت کرے وہ میرے ساتھ ہو لے اور میں جہاں بھی ہوں میرے غلام میرے ساتھ ہوں گے ۔ میرا باپ انکو بھی عزت دیگا ۔ جو میری خدمت کریں گے ۔ 27 اب میری جان گھبراتی ہے پس میں کیا کروں ۔ کیا میں کہوں کہ اے باپ مجھے ان تکالیف سے بچا ! نہیں میں خود ان تکالیف کو سہنے آیا ہوں ۔ 28 اے باپ اپنے نام کی عظمت و جلال رکھ لے ۔” تب ایک آواز آسمان سے آئی ، “میں نے اس نام کی عظمت و جلال کو قائم رکھا ہے ۔” 29 جو لوگ وہاں کھڑے تھے انہوں نے اس آواز کو سن کر کہا بادل کی گرج ہے لیکن دوسروں نے کہا نہیں ، “یہ تو فرشتہ ہے جو یسوع سے ہم کلام ہوا ۔” 30 یسوع نے لوگوں سے کہا ،”یہ آواز میرے لئے نہیں بلکہ تمہارے لئے تھی ۔ 31 اب دنیا کی عدالت کا وقت آپہونچا ہے ۔ اب دنیا کا حاکم (شیطان ) دنیا سے نکال دیا جائیگا ۔ 32 اور مجھے بھی زمین سے اٹھا لیا جائیگا جب ایسا ہوگا میں سب لوگوں کو اپنے پاس لے لونگا۔” 33 اس طرح یسوع نے بتا یا کہ وہ کس طرح کی موت مریگا ۔ 34 لوگوں نے کہا لیکن ،”ہماری شریعت بتا تی ہے مسیح ہمیشہ کے لئے رہیگا پھر تم ایسا کیوں کہتے ہو کہ ابن آدم کو اوپر اٹھا لیا جائیگا یہ ابن آدم کون ہے ؟” 35 تب یسوع نے ان سے کہا ،”کچھ دیر تک نور تمہارے ساتھ ہے جب تک نور تمہارے ساتھ ہے تاریکی تم پر غالب نہ آئیگی اور جو تاریکی میں چلتا ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ کہاں جا رہا ہے ۔ 36 جبکہ نور تمہارے پاس ہے لہذا اب تم نور پر ایمان لاؤ تا کہ تم نور کے بیٹے بنو ۔ جب یسوع نے اپنا کہنا ختم کیا اور ایسی جگہ گئے جہاں لوگ اسے پا نہیں سکے ۔ 37 یسوع نے کئی معجزے دکھا ئے اور لوگوں نے سب کچھ دیکھا اس کے باوجود اس پر ایمان نہیں لائے۔ 38 اس سے یسعیاہ نبی کے کلام کی وضاحت ہوئی جو اس نے کہا: 39 اسکی ایک اور وجہ تھی جس سے وہ ایمان نہ لائے جیسا کہ یسعیاہ نے کہا: 40 ، “خدا نے انہیں اندھا 41 یسعیاہ نے یہ اسلئے کہا کہ اس نے اس عظمت و جلال کو دیکھا تھا اس لئے یسعیاہ نے اس کے بارے میں ایسا کہا۔ 42 کئی لوگوں نے یسوع پر ایمان لایا حتٰی کہ یہودی سرداروں نے بھی اس پر ایمان لائے مگر وہ فریسیوں سے ڈرتے تھے اسلئے انہوں نے اعلانیہ طورپر اپنے ایمان لا نے کو ظاہر نہیں کیا ۔ انہیں یہ ڈر تھا کہ کہیں انہیں یہودیوں کی عبادت گاہ سے نکال نہ دیا جائے ۔ 43 اسلئے کہ انہیں خدا کی تعریف کی بجائے لوگوں کی تعریف چاہئے تھی۔ 44 یسوع نے بلند آواز سے کہا ، “جو مجھ پر ایمان لاتا ہے تو وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتا گویا وہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لا تاہے ۔ 45 ، “جو مجھے دیکھتا ہے گویا اس نے میرے بھیجنے والے کو دیکھا ۔ 46 میں نور ہوں ،اور اس دنیا میں آیا ہوں ۔ تا کہ لوگ مجھ پر ایمان لائیں اور جو کوئی مجھ پر ایمان لائے گا وہ تاریکی میں نہ رہیگا ۔ 47 ، “میں اس دنیا میں لوگوں کا انصاف کر نے نہیں آیا بلکہ لوگوں کو پا نے کے لئے آیا ہوں تو پھر میں وہ نہیں ہوں کہ لوگوں کا انصاف کرو ں جو میری تعلیمات کو سنکر ایمان نہ لا ئے میں اسے مجرم ٹھہراؤں۔ 48 جن لوگوں نے میری باتیں سنیں اور ایمان نہیں لائے انہیں مجرم ٹھہرا نے والا ایک ہی ہے ۔ جو کچھ میں نے تمہیں سکھایا اور اس کے مطابق آخری دن اسکا فیصلہ ہوگا۔ 49 کیوں کہ جن چیزوں کی میں نے تعلیم دی ہے وہ میری اپنی نہیں ۔ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اسی نے کہا کہ کیا کہنا ہے کیا کرنا ہے۔ 50 اور میں جانتا ہوں کہ ہمیشہ کی زندگی باپ کے احکام پر عمل کرکے ملتی ہے چنانچہ جو کچھ کہتا ہوں وہ سب باتیں باپ ہی کی ہیں جس نے مجھے کہنے کے لئے کہا۔” 1 فسح کی تقریب کے قریب یسوع نے جان لیا کہ وقت آپہنچا ہے کہ دنیا سے نکل کر باپ کے پاس جا ؤں۔ اس نے دنیا میں ہمیشہ ا ن لوگوں سے محبت کی جو ان کے اپنے تھے۔ اس وقت انہوں نے اپنی محبت کا پوری طرح اظہار کیا۔ 2 یسوع اور اس کے شاگرد رات کے کھا نے پر تھے ۔ شیطان ابلیس یہوداہ اسکریوتی کے دل میں بات ڈال چکا تھا کہ وہ یسوع کے خلاف ہو جا ئے ۔یہوداہ شمعون کا بیٹا تھا ۔ 3 یسوع کو باپ نے ہر چیز پر اختیار دے دیاتھا یسوع یہ جان گئے تھے ۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ خدا کی طرف سے آیا ہے اور واپس خدا کے پاس ہی جا رہا ہے ۔ 4 وہ جب کھا نا کھا رہے تھے یسوع نے کھڑے ہو کر اپنے کپڑے اتا رے اور رومال اپنی کمر سے باندھا۔ 5 یسوع پھر برتن سے پا نی ڈال کر اپنے شاگردوں کے پا ؤں دھوئے اور اسے پھر اپنے رومال سے پو نچھا جو اس کی کمر میں بندھا تھا۔ 6 یسوع پھر شمعون پطرس کے پاس آئے پھرپطرس نے یسوع سے کہا ،”اے خداوند آپ میرے پیر نہ دھو ئیں۔” 7 یسوع نے کہا ، “اب تم نہیں جانتے کہ میں کیا کر رہا ہوں لیکن بعد میں تمہا ری سمجھ میں آجائے گا ۔” 8 پطر س نے کہا ،”میں آپ کو اپنے پیر کبھی نہیں دھو نے دونگا” ۔یسوع نے جواب دیا ، “اگر میں تمہا رے پاؤں نہ دھوؤں تو پھر تم میرے لوگوں میں سے نہیں ہو گے”۔ 9 شمعون پطرس نے کہا ، “اے خدا وند ! میرے پیر دھو نے کے بعد میرے ہا تھ اور میرا سر بھی دھو ڈالو۔” 10 یسوع نے کہا ، “جو نہا چکا ہے اس کو سوائے پاؤں کے کسی اور عضو کو دھونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اس کا پورا بدن صاف ہے اس کو صرف پیر ہی دھو نے کی ضرورت ہے اور تم لوگ پاک ہو ۔ لیکن سب کے سب پاک نہیں۔” 11 یسوع یہ جان گئے تھے کہ کون اس کا مخا لف ہے اسی لئے اس نے کہا ، ”تم میں ہر کو ئی پاک نہیں۔” 12 جب یسوع ان کے پا ؤں دھو چکے تو پھر کپڑے پہن کر واپس میز پر آگئے یسوع نے پوچھا ،”کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہا رے لئے کیا کیا ؟ 13 تم مجھے استاد اور خدا وند کہتے ہو یہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو کیوں کہ میں وہی ہوں ۔ 14 میں تمہا را خداوند اور استاد ہوں لیکن میں نے تمہا رے پیر ایک خا دم کی طرح دھو ئے اس لئے تم بھی آپس میں ایک دوسرے کے پیر دھوؤ۔ 15 میں نے ایسا اس لئے کیا تا کہ تمہا رے لئے ایک مثال قائم ہو اس لئے تمہیں بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا ہی کر نا چاہئے جیسا کہ میں نے تمہا رے ساتھ کیا۔ 16 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک خادم اپنے آقا سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا اور نہ قاصد ہی اپنے بھیجنے والے سے بڑا ہو سکتا ہے ۔ 17 اگرتم یہ جانتے ہو تب تم خوش رہو گے اگر یہ سب تم کروگے ۔ 18 ، “میں تم سب کے بارے میں نہیں کہتا ہوں۔میں جن کو منتخب کیا ہوں انہیں میں جانتا ہوں لیکن جو صحیفہ میں ہے وہ پو را ہوگا ۔ جو میرے ساتھ کھانے میں شریک رہا وہی میرا مخا لف ہوا ۔ 19 اب میں اس کے ہو نے سے پہلے خبر دا ر کر تا ہوں تا کہ جب یہ واقعہ ہو جا ئے تو تم ایمان لا ؤ کہ میں وہی ہوں ۔ 20 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جس نے میرے بھیجے ہو ئے کو قبول کیا گویا اس نے مجھے قبول کیا اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے ۔” 21 یہ باتیں کہہ کر یسوع نے اپنے آپ کو تکلیف میں محسوس کیا اور اعلانیہ طور پر کہا ، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک میرا مخالف ہو گا ۔” 22 یسوع کے شاگردوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور وہ سمجھ نہیں سکے کہ یسوع کس آدمی کے بارے میں کہہ رہے ہیں ۔” 23 ایک شاگرد جو یسوع کے قریب تھا اور یسوع کی طرف جھک کر بیٹھا ہوا تھا اور وہ یسوع کا چہیتا شاگرد تھا ۔ 24 شمعون پطرس نے اس کو اشارہ سے کہا کہ پو چھو یسوع اس کے بارے میں بات کر رہا ہے ۔ 25 اور وہ شاگرد اسی طرح قربت کے سہارے سے کہا ، “اے خداوند کون ہے جو تمہارا مخالف ہو گا ؟” 26 یسوع نے جواب دیا ،”میں اس روٹی کو ڈبو کر ایک شخص کو دونگا وہ و ہی ہے اور یسوع نے ایک روٹی کا ٹکڑا لیا اور اس کو برتن میں ڈبو کر یہوداہ اسکریوتی کو دیا جو شمعون کا بیٹا تھا ۔ 27 جب یہوداہ نے روٹی لی شیطان یہوداہ میں سما گیا ۔ یسوع نے یہوداہ سے کہا ، “جو تو کر نا چاہتا ہے وہ جلدی سے کر ، “۔ 28 میز پر بیٹھے ہو ئے شاگردوں میں کسی نے نہ سمجھا کہ یسوع نے اسکو ایسا کیوں کہا ۔ 29 چونکہ یہوداہ کے پاس رقم کی تھیلی رہتی تھی اس لئے شاگردوں نے سمجھا شاید یسوع کی مرضی یہ ہے کہ یہوداہ بازار جا کر تقریب کے لئے کچھ خرید لا ئے یا پھر وہ سمجھے کہ شاید یسوع یہوداہ کو یہ کہنا چاہتا ہے کہ غریبوں میں کچھ بانٹ دے ۔ 30 یہوداہ روٹی کا ٹکڑا لیا اور فوراً باہر چلا گیا ۔یہ رات کا وقت تھا ۔ 31 جب یہوداہ چلا گیا تو یسوع نے کہا ، “اب ابن آدم جلال پا رہا ہے ۔ اور خدا نے ابنِ آ دم سے جلال پایا۔ 32 اگر خدا اسکے ذریعے جلال پاتا ہے تب خدا بھی بیٹے کو جلال دیتا ہے اور اسکو جلد ہی جلال دیگا ۔” 33 یسوع نے کہا ،”میرے بچوں میں تمہارے ساتھ صرف مختصر عرصے کے لئے رہونگا تم مجھے ڈھونڈو گے اور جیسا میں نے یہودیوں سے کہا تھا اسی طرح تم سے اب بھی کہتا ہوں ، “میں جہاں جا رہا ہوں تم نہیں آسکتے ۔ 34 “اب میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں ایک دوسرے سے محبت کرو جیسا کہ میں نے تم سے محبت کی تھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت کرو ۔ 35 سب لوگ یہ جان جائیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو اگر تم ایک دوسرے سے محبت کرو گے ۔” 36 شمعون پطرس نے یسوع سے کہا ، “اے خدا وند آپ کہاں جا رہے ہیں ۔”یسوع نے کہا، ”جہاں میں جا رہا ہوں وہاں تم نہیں آسکتے وہاں بعد میں تم میرے پیچھے آؤ گے ۔” 37 پطرس نے کہا ، “اے خدا وند ! میں اب آپکے پیچھے کیوں نہیں آسکتا میں آپ کے لئے مر نے کو تیار ہوں ۔” 38 یسوع نے جواب دیا کیا تم حقیقت میں اپنی زندگی میرے لئے دو گے میں سچ کہتا ہوں جب تک مرغ بانگ نہ دیگا تب تک تو تین بار میرا انکار کرے گا کہ تو مجھے نہیں جانتا ہے ۔” 1 یسوع نے کہا ، “اپنے دل کو تکلیف نہ دو خدا پر اور مجھ پر بھروسہ رکھو ۔ 2 میرے با پ کے گھر میں کئی کمرے ہیں اگر یہ سچ نہ ہو تا تو میں تم سے کبھی نہ کہتا ۔ میں وہاں جارہا ہوں تا کہ تمہا رے لئے جگہ تیار کروں۔ 3 جب میں وہا ں جا کر تمہا رے لئے جگہ بنا لوں تب دوبارہ میں پھر آؤں گا ۔ اور میں تمہیں اپنے ساتھ لے جا ؤں گا ۔ اور تب تم میرے ساتھ جہاں میں ہوں وہاں تم بھی رہنا ۔ 4 اور تم اس راہ کو جانتے ہو جہاں میں جا رہا ہوں۔” 5 تھوما نے کہا،”ا ے خداوند! ہم نہیں جانتے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں پھر ہم کس طرح راہ کو جانیں گے ؟” 6 یسوع نے جواب دیا ،”میں راستہ ہوں میں سچا ئی ہوں اور زندگی بھی۔ میں ہی ایک ذریعہ ہوں جس سے تم باپ کے پاس جا سکتے ہو ۔ 7 اگر تم حقیقت میں مجھے جان گئے ہو تے تو میرے باپ کو بھی جانتے اب تم اسے جانتے ہو اور تم نے اسے دیکھ لیا ہے ۔” 8 فلپ نے یسوع سے کہا ، “اے خداوند ! ہمیں اپنے باپ کو دکھا ؤ یہی ہم چا ہتے ہیں۔” 9 یسوع نے جواب دیا ، “فلپ میں اتنے عرصہ سے تمہا رے ساتھ ہوں اور تمہیں مجھے جاننا چاہئے ۔جس شخص نے مجھے دیکھا ہے اس نے باپ کو بھی دیکھا ہے پھر تم ایسا کیوں کہتے ہو کہ ہمیں باپ کو دکھا ؤ؟ 10 کیا تمہیں یقین نہیں ہے کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے جو کچھ میں تمہیں کہہ چکا ہوں وہ میری طرف سے نہیں بلکہ باپ مجھ میں ہے اور وہ اپنا کام کر رہا ہے۔ 11 جب میں یہ کہوں کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں ہوں تو یقین کر نا چا ہئے یا پھر معجزے کی وجہ سے ایمان لے آ ؤ جو میں نے کئے۔ 12 میں سچ کہتا ہوں جو شخص مجھ میں یقین رکھتا ہے اور ایمان رکھتا ہے اور جو کام میں کرتا ہوں وہ بھی کرے ۔ہاں! وہ اس سے بھی بڑا کام کرے گا جو میں نے کئے ہیں ۔کیوں کہ میں باپ کے پا س جا رہا ہوں۔ 13 اگر تم میرے نام سے کچھ چا ہو گے میں تمہا رے لئے کروں گا اس طرح باپ کی عظمت و جلال کا اظہار بیٹے کے ذریعے ہو گا ۔ 14 اگر تم میرے نام سے کچھ چا ہو گے میں تمہا رے لئے کروں گا۔ 15 ، “اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو تم وہی کروگے جس کا میں نے حکم دیا ہے۔ 16 میں باپ سے استدعا کروں گا تو وہ تمہا رے لئے دوسرا مدد گار دیگا ۔ اور وہ ہمیشہ تمہا رے ساتھ رہے گا۔ 17 وہ مدد گا ر یعنی روح حق جسے دنیا تسلیم نہیں کرتی کیوں کہ دنیا نہ اسے جانتی ہے اور نہ دیکھتی ہے لیکن تم جانتے ہو وہ تمہا رے ساتھ ہے اور تم میں رہے گی۔ 18 ، “میں تمہیں اس طرح تنہا نہیں چھو ڑوں گا جیسے بغیر والدین کے بچے رہتے ہیں میں دوبارہ تمہا رے پاس آؤں گا ۔ 19 بہت کم وقت میں دنیا کے لوگ مجھے پھر نہ دیکھیں گے لیکن تم مجھے دیکھو گے تم زندہ رہوگے اس لئے کہ میں زندہ ہوں ۔ 20 اس روز تم جان جاؤگے کہ میں با پ میں ہوں ۔ اور یہ بھی جان جا ؤگے تم مجھ میں ہو اور میں تم میں ہوں ۔ 21 اگر کوئی شخص میرے احکام کو جانتا ہے اور اس پر عمل کر تا ہے تو ایسا شخص حقیقت میں مجھ سے ہی محبت کرتا ہے اور میرا باپ بھی اس سے محبت کرتا ہے جو مجھ سے محبت کر ے گا اور میں خود کو اس پر ظاہر کروں گا اور میں اس سے محبت کروں گا اور اپنے آپ کو اس پر ظا ہر کروں گا ۔” 22 تب یہوداہ نے ( یہوداہ اسکر یوتی نہیں )کہا ، “اے خدا وندتم اپنے آپ کو ہم پر ظا ہر کرنے کا منصوبہ کیوں بنا رہے ہو اور دنیا پر کیوں نہیں ؟” 23 یسوع نے جواب دیا ، “اگر کو ئی آدمی مجھ سے محبت کریگا تو میرے کلام پر عمل کرے گا ۔ میرا باپ اس سے محبت کرے گا۔ میں اور میرا باپ اس کے ساتھ رہے گا ۔ 24 لیکن جو شخص مجھ سے محبت نہیں رکھتا میری تعلیمات پر عمل نہیں کرتا ۔ اور یہ تعلیمات جو تم سنتے ہو حقیقت میں میری نہیں ہیں بلکہ میرے باپ کی طرف سے ہیں جس نے مجھے بھیجا ہے ۔ 25 ، “میں تم سے یہ سب کچھ کہہ چکا ہوں جبکہ میں تمہا رے ساتھ ہوں ۔ 26 لیکن مددگار تمہیں ہر چیز کی تعلیم دے گا یہ مددگار جو مقدس روح ہے تمہیں میری ہر بات کی یاد دلا ئیگا۔”یہ مددگار مقدس روح ہے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا ۔ 27 ، “میں تمہیں اطمینان دلا تا ہوں یہ میرا اپنا اطمینان ہے تمہیں دیتا ہوں مگر اس طرح نہیں جیسا کہ دنیا تمہیں دیتی ہے اس لئے مت گھبرا ؤ اور نہ ڈرو۔ 28 تم سن چکے ہو جو کچھ کہ میں تم سے کہہ چکا ہو ں کہ میں جانتا ہوں لیکن میں پھر تمہا رے پاس آؤں گا ۔اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو تم خوش ہو گے کیوں کہ میں باپ کے پاس جا رہا ں ہوں۔ کیوں کہ باپ مجھ سے زیادہ عظیم ہے ۔ 29 میں تم سے کچھ ہو نے سے قبل سب باتیں کہہ چکا ہوں ۔ تا کہ جب ہو جائے تو تم یقین کر سکو ۔” 30 میں تم سے اور زیادہ بات نہیں کروں گا کیوں کہ دنیا کا حا کم (ابلیس ) آرہا ہے اس کا مجھ پرکو ئی اختیار نہیں ہے ۔ 31 لیکن دنیا کو یہ جاننا چاہئے کہ میں باپ سے محبت کر تا ہو ں اس لئے میں وہی کچھ کر تا ہو ں جو باپ نے مجھ سے کرنے کو کہا ہے” آؤ ہم یہاں سے چلیں گے ۔” 1 یسوع نے کہا ، “میں انگور کی حقیقی بیل ہوں اور میرا باپ باغبان ہے ۔ 2 میری ہر شاخ جو پھل نہیں لاتی وہ کا ٹ ڈالتا ہے اور ہر شاخ کو چھانٹتا ہے جو پھل لا تی ہے تاکہ اور پھل زیادہ ہو۔ 3 میری تعلیما ت جو تم کو ملی ہے جس کی وجہ سے تم پاک ہو ۔ 4 تم مجھ میں ہمیشہ قائم رہو اور میں تم میں ہمیشہ قائم رہو ں گا کوئی بھی شاخ جو درخت سے الگ تنہا ہو پھل نہیں لا تی اس لئے اسے درخت سے قائم لگے رہنا ہے اور یہی معاملہ تمہا رے ساتھ بھی ہے اگر مجھ پر قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے ۔ 5 ، “میں انگور کا درخت ہوں اور تم اسکی شاخیں ہو اگر کوئی شخص مجھ پر قائم رہے اور میں اس میں رہوں زیادہ پھل لا ئیگا۔ میرے بغیر تم کچھ نہ کر سکو گے۔ 6 اگر کوئی شخص مجھ میں قائم نہ رہا تو اسکی مثال اس شاخ کی ہے جسے پھینک دی جا تی ہے ۔اور وہ شاخ مردہ ہو جاتی ہے یعنی سوکھ جا تی ہے لوگ سوکھی شاخ اٹھا کر آگ میں جلا دیتے ہیں۔ 7 ، “مجھ میں قائم رہو اور میری تعلیمات پر عمل کرو اگر تم ایسا کرو تو تم جو چا ہو طلب کرو اور وہ تمہیں دی جا ئیں گی ۔ 8 تم بہت سے پھل لا ؤاور ثابت کر دو کہ تم میرے شاگرد ہو اور میرے باپ کا جلا ل اسی سے ہے ۔ 9 میں تم سے محبت اس طرح کرتا ہوں جس طرح باپ مجھ سے کرتا ہے تم میری محبت میں قائم رہو ۔ 10 میں نے اپنے باپ کے احکام کی تعمیل کی اور اس کی محبت کو قائم رکھا اسی طرح اگر تم بھی میرے احکام کی تعمیل کرو تو تم میری محبت میں قائم رہو گے ۔ 11 یہ سب کچھ میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ تم ویسے ہی خوش رہو جس طرح میں ہوں میں چا ہتا ہوں کہ تمہا ری ہر خوشی مکمل ہو جا ئے۔ 12 میں حکم دیتا ہوں کہ جیسی محبت میں نے تم سے رکھی ہے اسی طرح تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو ۔ 13 سب سے زیادہ محبت یہ ہے کہ آدمی اپنے دوستوں کے لئے اپنی جان دیدیں۔ 14 اگر تم وہ چیزیں کرو جس کا میں نے حکم دیاہے تو تم میرے دوست ہو ۔ 15 میں تمہیں اور دوبارہ خادم نہیں کہوں گا کہ خا دم نہیں جانتا کہ اس کا آقا کیا کر رہا ہے ۔ لیکن میں تمہیں دوست کہتا ہوں کیوں کہ میں وہ سب کچھ کہہ چکا ہوں جو میں نے باپ سے سنی ہیں۔ 16 تم نے مجھے منتخب نہیں کیا بلکہ میں نے تمہا را انتخاب کیا ہے کہ تم جا کر پھل لا ؤ۔ میں چا ہتا ہوں کہ یہ پھل تمہا ری زندگی میں قائم رہے ۔تب ہی باپ تمہیں ہر وہ چیز دے گا جو تم میرے نام سے مانگو ۔ 17 یہ تم کو میرا حکم ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ 18 ، “اگر دنیا تم سے نفرت کرے تویہ یاد رکھوکہ دنیا مجھ سے پہلے ہی نفرت کر چکی ہے ۔ 19 اگر تم دنیا کے ہو تے تودنیا تمہیں اپنے لوگوں جیسا عزیز رکھتی چونکہ تم دنیا کے نہیں ہو کیوں کہ میں نے تمہیں دنیا سے چن لیا ہے اسی لئے دنیا نفرت کر تی ہے ۔ 20 جو کچھ میں نے تم سے کہا اسے یا د رکھو کہ خادم اپنے آقا سے بڑا نہیں ہوتا اگر لوگوں نے مجھے ستایاہے تو تمہیں بھی ستا ئیں گے ۔ اور اگر لوگ میری تعلیمات پر عمل کئے ہیں تو وہ تمہا ری بات پر بھی عمل کریں گے ۔ 21 لوگ یہ سب کچھ میرے نام کی وجہ سے تمہا رے ساتھ کریں گے اور یہ لوگ اس کو نہیں جانتے جس نے مجھے بھیجا ہے ۔ 22 اگر میں نہ آتا اور دنیا کے لوگوں سے نہ کہتا تب وہ گناہ کے مجرم نہ ہو تے۔لیکن ا ب میں انہیں کہہ چکا ہوں اس لئے وہ گناہ کی معافی کا جواز نہیں دے سکتے۔ 23 جو مجھ سے نفرت کرتا ہے وہ میرے باپ سے بھی نفرت کرتا ہے ۔ 24 میں نے لوگوں میں ایسے کام کئے کہ اس سے پہلے کسی نے نہیں کئے اگر میں ایسا نہ کرتا تو وہ گنہگار ٹھہرتے لیکن وہ سب کام جو میں نے کیا انہوں نے دیکھا ہے ۔ اور اب بھی مجھ سے اور میرے باپ سے نفرت کر تے ہیں۔ 25 لیکن یہ سب اس لئے ہوا کہ ان کی شریعت میں جو لکھا ہوا تھا وہ سچ ثابت ہوا انہوں نے بلا وجہ مجھ سے نفرت کی۔ 26 میں تمہا رے پاس مدد گار بھیجونگا جو میرے با پ کی طرف سے ہوگا وہ مددگار سچا ئی کی روح ہے جو باپ کی طرف سے آتی ہے جب وہ آئے تو میرے بارے میں گواہی دے گی ۔ 27 اور تم بھی لوگوں سے میرے بارے میں کہوگے کیو ں کہ تم شروع ہی سے میرے ساتھ ہو ۔ 1 ، “میں نے تم سے یہ باتیں اس لئے کہیں تا کہ تم اپنا ایمان نہ کھو دو۔ 2 لوگ تمہیں یہودی عبا دت خا نے سے نکال دیں گے ہاں یہ وقت آ رہا ہے کہ لوگ تمہیں ما ر نے کو خدا کی خدمت کر نے کے برا بر سمجھیں گے ۔ 3 لوگ ایسا اس لئے کریں گے کہ نہ انہوں نے باپ کو جانا اور نہ مجھے ۔ 4 میں اب تمہیں یہ سب کچھ کہتا ہوں تا کہ جب ان چیزوں کا وقت آئے تو تمہیں یاد آجا ئے کہ میں نے تم کو خبر دار کر دیا تھا۔ 5 اب میں جا رہا ہو ں اس کے پاس جس نے مجھے بھیجا ہے اور تم میں سے کو ئی نہیں پوچھتا کہ تم کہاں جا رہے ہو ؟ 6 تمہا رے دل غم سے بھرے ہو ئے ہیں کیوں کہ میں تم سے یہ باتیں کہہ دیا ہوں ۔ 7 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے بہتر ہے کیوں کہ اگر میں جاتا ہوں تو تمہا رے لئے مددگار بھیجوں گا ۔ اگر میں نہیں جا ؤں توتمہا رے پاس مددگار نہ آئے گا ۔ 8 جب مدد گار آئے تو وہ دنیا کی خرابی کو ثابت کرے گا اور گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں بھی بتا ئے گا ۔ 9 مددگار دنیا کی غلطی کو ثابت کر یگا کیوں کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لا ئے ۔ 10 وہ ثابت کرے گا کہ دنیا راستبازی میں غلط ہے ۔کیوں کہ میں اپنے باپ کے پاس جا رہا ہوں اور تم پھر مجھے نہ دیکھو گے ۔ 11 وہ مددگار یہ ثابت کریگا عدالت کے بارے میں دنیا کو اس لئے کہ اس دنیا کے حا کم(ابلیس ) کو پہلے ہی مجرم ٹھہرا دیا گیاہے ۔ 12 ، “مجھے تم سے اور بہت کچھ کہنا ہے مگر ان سب باتوں کو تم برداشت نہ کر سکوگے ۔ 13 لیکن جب روح حق آئیگا تو تم کو سچا ئی کی راہ دکھا ئے گا ۔ روح حق اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ وہ وہی کہے گا جو وہ سنتا ہے وہ تمہیں وہی کہے گا جو کچھ ہو نے والا ہے ۔ 14 روح حق میری عظمت و جلا ل کو ظا ہر کرے گا اس لئے کہ وہ مجھ سے ان چیزوں کو حا صل کر کے تمہیں کہے گا ۔ 15 جو کچھ باپ کا ہے وہ میرا ہے ۔ اسی لئے میں نے کہا وہ روح مجھ سے ہی حا صل کر کے تمہیں معلوم کرا ئے گا ۔ 16 ، “تھوڑی ہی دیر بعد تم مجھے نہ دیکھو گے۔” پھر اس کے تھوڑی ہی دیر بعد ہی تم مجھے دوبا رہ دیکھو گے ۔” 17 بعض شاگردو ں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا ، ”اسکا کیا مطلب ہے کہ جو یسوع کہتا ہے ، “تھوڑی دیر بعد تم نہ دیکھو گے اور پھر تھوڑی ہی دیر میں مجھے دو بارہ دیکھو گے ؟ ، “اور پھر اس کا کیا مطلب ہے کہ جب وہ کہتا ہے کہ میں باپ کے پاس جا رہا ہوں ۔ 18 شاگردوں نے پو چھا ، “اس کا کیا مطلب ہے جب وہ کہتا ہے تھو ڑی دیر بعد؟ہم لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے ۔” 19 یسوع نے دیکھا کہ شاگرد کچھ پوچھنا چاہتے ہیں اس لئے یسوع نے اپنے شاگردو ں سے پو چھا ، “کیا تم میری اس بات کی تحقیق چا ہتے ہو جو میں نے تم سے کہی کہ تھو ڑی دیر بعد تم مجھے نہ دیکھو گے اور پھر تھو ڑی ہی دیر میں دوبا رہ دیکھ لو گے ؟ 20 میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ تم رو ؤگے اور رنجیدہ ہوگے مگر دنیا خوش ہو گی تم رنجیدہ ہو گے لیکن تمہا ری رنجید گی ہی تمہا ری خوشی بنے گی ۔ 21 جب عورت بچہ جنتی ہے تو اس کو درد ہو تا ہے کیو ں کہ اس کا وقت آ چکا ہے لیکن جب بچہ پیدا ہو جاتاہے تو وہ درد کو بھول جا تی ہے کیوں کہ وہ خوش ہو تی ہے کہ دنیا میں ایک بچہ پیدا ہوا ۔ 22 یہی کچھ تمہا رے ساتھ ہے اب تم رنجیدہ ہو لیکن میں تم سے پھر ملوں گا تو تم خوش ہو گے ۔ اور کو ئی بھی تمہا ری خوشی تم سے نہیں چھین سکتا ۔ 23 اس دن تم مجھ سے کچھ نہ پو چھوگے میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ میرا باپ تمکو ہر چیز دیگا جو تم میرے نام سے مانگو گے ۔ 24 تم نے میرے نام سے اب تک کچھ نہیں مانگا ۔مانگو اور تمہیں ملے گا تا کہ تمہیں کامل خوشی مل سکے ۔” 25 ، “میں نے یہ باتیں تم سے تمثیل میں کہیں لیکن ایک وقت آئے گا تب میں تم سے اس طرح تمثیل سے باتیں نہ کہوں گا میں تم سے واضح الفاظ میں باپ کے متعلق کہوں گا ۔ 26 اس دن تم باپ سے میرے نام پر مانگو گے اور میرا مطلب یہ کہ مجھے باپ سے تمہا رے لئے درخواست کی ضرورت نہیں ۔ 27 اس لئے کہ باپ خود تم سے محبت کر تا ہے وہ تمہیں اس لئے عزیز رکھتا ہے کیوں کہ تم مجھے عزیز رکھتے ہو اور تم نے میرے خدا کی جانب سے آنے پر ایمان لا یا۔ 28 میں باپ کے پاس سے اس دنیا میں آیا اور اب میں دنیا چھوڑ رہا ہوں اوربا پ کے پاس جا رہا ہوں۔ 29 تب یسوع کے شاگردوں نے کہا ، “اب آپ صاف صاف کہتے ہو اور کوئی تمثیل نہیں کہتے ۔ 30 اب ہم جان چکے ہیں کہ آپ سب کچھ جانتے ہو ۔ حتیٰ کے کوئی تم سے سوال کرے آپ اس سے پہلے اس کا جواب دے سکتے ہو ۔ اور ہم اسی سبب سے ایمان لا تے ہیں کہ آپ خدا کی طرف سے آئے ہو ۔” 31 یسوع نے کہا،”تو کیاتم اب ایمان لا تے ہو ؟ 32 سنو! ، “وقت آرہا ہے کہ تم میں سے ہر ایک بکھر کر اپنے گھروں کی راہ لو گے اور مجھے اکیلا چھوڑ دو گے تو بھی میں کبھی اکیلا نہیں ہوں کیوں کہ باپ میرے ساتھ ہے ۔ 33 ، “میں نے تم سے یہ باتیں اس لئے کہیں کہ تم مجھ میں اطمینان پا ؤ اس دنیا میں تمہیں تکلیفیں ہوں گی لیکن مطمئن رہو کہ میں نے دنیا کو فتح کیا ہے ۔” 1 جب یسوع یہ ساری باتیں کہہ چکے تو اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھا کر کہا !” اے باپ ! وہ وقت آگیا ہے کہ بیٹے کو جلا ل عطا کر تا کہ بیٹا تمہیں جلا ل دے سکے ۔ 2 تم نے بیٹے کو ہر بشر پر اختیا ر دیا تا کہ میں ان کو ابدی زندگی دے سکو ں جن کو تو نے میرے حوا لہ کیا ہے ۔ 3 اور یہی ابدی زندگی ہے کہ آدمی تجھے جان سکے کہ تو ہی سچا خدا ہے اور یسوع مسیح کو جان سکے جسے تو نے بھیجا ہے ۔ 4 وہ کام جو تو نے میرے ذمہ کیا تھا میں وہ ختم کیا ۔ اور تیرے جلا ل کو زمین پر ظا ہر کیا ۔ 5 اور اب اے باپ اپنے ساتھ مجھے جلا ل دے اور اسی جلا ل کو دے جو دنیا بننے سے پہلے تیرے ساتھ مجھے حا صل تھا ۔ 6 تو نے مجھے دنیا میں سے چند آدمیوں کو دیا میں نے تیرے بارے میں انہیں بتا یا میں نے یہ بھی بتا یا کہ تو کون ہے وہ آدمی تیرے ہی تھے جو تو نے مجھے دیئے تھے ۔ انہوں نے تیری تعلیمات پر عمل کیا ۔ 7 اب انہوں نے یہ جان لیا کہ جو کچھ تو نے مجھے دیا وہ تیری ہی طرف سے تھا ۔ 8 ، “جو تو نے مجھے دیا تھا، اسی تعلیما ت کو میں نے ان لوگوں کو دی ۔ انہوں نے تعلیما ت کو قبول کیا ۔ اور سچ مانا کہ میں تیری ہی طرف سے آیا ہوں اور ایمان لا ئے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے ۔ 9 ان کے لئے میں دعا کرتا ہو ں۔ میں دنیا کے لوگوں کے لئے دعا نہیں کرتا لیکن میں ان کے لئے دعا کرتا ہو ں جو تو نے مجھے دیا کیوں کہ وہ تیرے ہیں۔ 10 جو کچھ میرے پا س ہے وہ تیرا ہی ہے جو کچھ تیرا ہے وہ میرا ہے اور انہی کی وجہ سے یہ لوگ میرے جلا ل کو لا تے ہیں ۔ 11 آئندہ میں دنیا میں نہ ہوں گا اب میں تیرے پاس آرہا ہوں اور اب یہ لوگ دنیا میں رہیں گے مقدس باپ انہیں محفوظ رکھ اپنے نام کے وسیلہ سے جو تو نے مجھے بخشا ہے تا کہ وہ متفق ہو ں جیسا کہ ہم متفق ہیں۔ 12 میں نے تیرے اس نام کے وسیلے سے جب تک رہا ان کی حفا ظت کی اور ان کو بچا ئے رکھا ان میں سے ایک آدمی نہیں کھو یا سوا ئے ایک جس کا انتخاب ہلا کت کے لئے تھا ۔ وہ اس لئے ہلا ک ہوا تا کہ صحیفوں کا لکھا پورا ہو ۔ 13 ، “اب میں تیرے پاس آرہا ہوں لیکن میں ان چیزوں کے لئے جب تک میں دنیا میں ہو ں دعا کرتا رہو ں تا کہ ان لوگوں کو میری خوشی حا صل ہو ۔ 14 میں نے تیرا کلام (تعلیمات) انہیں پہنچا دیا اور دنیا نے ان سے نفرت کی ۔ دنیا نے ان سے اس لئے نفرت کی کہ وہ ا س دنیا کے نہیں جیسا کہ میں اس دنیا کا نہیں۔ 15 میں یہ نہیں کہتا کہ تو انہیں دنیا سے اٹھا لے بلکہ میں یہ کہتا ہو ں کہ تو انہیں شیطان کے شر سے محفوظ رکھ۔ 16 جیسا کہ میں اس دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں۔ 17 تو انہیں سچا ئی سے اپنی خدمت کے لئے تیار کر تیری تعلیمات سچ ہیں۔ 18 میں نے انہیں دنیا میں بھیجا جس طرح تو نے مجھے بھیجا ۔ 19 میں اپنے آپ کو خدمت کے لئے تیار کررہا ہو ں۔ یہ ان ہی کے لئے کررہا ہو ں تا کہ وہ میری سچی خدمت کر سکیں۔ 20 ، “میں ان لوگوں کے لئے دعا کر تا ہو ں بلکہ میں ان تمام لوگوں کے لئے دعا کر تا ہو ں جو ان کی تعلیمات سے مجھ پر ایمان لا ئے ۔ 21 اے باپ ! میں دعا کرتا ہو ں کہ تمام لوگ جو مجھ پر ایمان لا ئے ایک ہو ں جس طرح میں تجھ میں ہوں اور میں دعا کرتا ہو ں کہ وہ بھی ہم میں متفق ہو جا ئیں ۔ تا کہ دنیا ایمان لا ئے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے ۔ 22 میں نے انہیں وہی جلال دیا ہے جسے تو نے مجھے دیا تھا۔ میں نے انہیں یہ جلا ل دیا تا کہ وہ ایک ہو سکیں جیسے تو اور میں ایک ہیں ۔ 23 میں ان میں ہوں اور تو مجھ میں ہے تا کہ وہ تمام با لکل ایک ہو جا ئیں اور دنیاجان لے کہ تو نے مجھے بھیجا ہے ۔اور تو نے ان سے ایسی محبت کی جس طرح مجھ سے ۔ 24 ، “اے باپ! میں چا ہتا ہو ں کہ جن لوگوں کو تو نے مجھے دیا ہے وہ میرے ساتھ ہر جگہ رہیں جہاں میں رہتا ہو ں تا کہ وہ میرے جلا ل کو دیکھیں جو تو نے مجھے دیا ہے کیوں کہ تو دنیاکے وجود کے پہلے سے مجھے عزیز رکھتا ہے ۔ 25 اے اچھے باپ دنیا نے تجھے نہیں جانا لیکن میں تجھے جانتا ہو ں اور یہ لوگ جانتے ہیں کہ تو نے مجھے بھیجا ہے ۔ 26 میں نے انہیں بتا یا ہے کہ تو کیا ہے اور لگا تار بتا تا رہوں گا کہ جو محبت تجھ کو مجھ سے ہے وہ انہیں ہو اور میں ان میں رہوں ۔” 1 یسوع دعا ختم کر کے اپنے شاگردں کے ساتھ وادی قدرون کے پار گئے جہا ں زیتون کا ایک باغ تھا ۔ وہ اور اس کے شاگرد اس میں گئے ۔ 2 یہوداہ اس جگہ کو جانتا تھا کیوں کہ یسوع اکثر اپنے شا گردوں کے ساتھ یہیں ملا کر تا تھا ۔ یہ وہ یہو داہ تھا جو یسوع کا مخا لف تھا ۔ 3 اور یہوداہ سپا ہیو ں کے دستہ کے ساتھ وہاں آیا یہوداہ اپنے ساتھ چند سردار کا ہنوں اور فریسیوں کے حفا ظتی دستوں کو لے آیا تھا جنکے پاس مشعل ،لا لٹین اور ہتھیار تھے ۔ 4 یسوع ان سب باتوں کو جو اس کے ساتھ ہو نے وا لی تھی جانتے تھے۔ یسوع باہر آئے اور پو چھے کسے دیکھنے کے لئے تم آئے ہو ؟ 5 ان آدمیوں نے جواب دیا ، “یسوع نا صری ، “یسوع نے کہا ، “میں یسوع ہوں” ( یہوداہ جو یسوع کا دشمن تھا ان کے ساتھ کھڑا تھا ) 6 جب یسوع نے کہا ، “میں یسوع ہوں” تب وہ آدمی پیچھے ہٹے اور زمین پر گر گئے ۔ 7 پھر یسوع نے کہا تم کس کو ڈھونڈ رہے ہو ۔ لو گوں نے کہا ، “یسوع ناصری کو ۔” 8 یسوع نے کہا،”میں تم سے سچ کہہ چکا ہوں کہ میں یسوع ہوں اگر تم مجھے ڈھونڈ رہے ہو تو ان دوسروں کو جانے دو ۔” 9 یہ اس نے اس لئے کہا کہ جو قول تو نے دیا وہ پورا ہو” جن آدمیوں کو تو نے مجھے دیا میں نے کسی کو بھی نہ کھویا ۔” 10 شمعون پطرس کے پا س تلوار تھی اس نے نکا ل کر اعلیٰ کا ہن کے خادم پر وار کر کے اس کا داہنا کان اڑا دیا ( اس خا دم کا نام ملخس تھا )۔ 11 یسوع نے پطرس سے کہا ، “تلوار کو نیام میں رکھ لے میں اس پیا لہ کو جو باپ نے دیا ہے کیوں نہ قبول کروں۔” 12 تب سپا ہیوں اور ان کے افسروں اور یہودیوں نے یسوع کو پکڑا اور باندھ دیا ۔ 13 اور اسے حناّ کے پاس لا ئے ۔ حناّ در اصل کائفا کا خسر تھا۔ کا ئفا ہی اس سال اعلیٰ کا ہن تھا ۔ 14 کا ئفا ہی وہ شخص تھا جس نے یہو دیوں سے کہا تھا سارے آدمیوں کے لئے ایک آدمی کا مر نا بہتر ہے ۔” 15 شمعون پطرس اور یسوع کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد یسوع کے ساتھ گئے ۔یہ شاگرد اعلیٰ کا ہن سے واقف تھا اسلئے وہ یسوع کے ساتھ اعلیٰ کا ہن کے مکان کے آنگن میں گئے ۔ 16 لیکن پطرس دروازہ کے با ہر ہی رہا ۔ وہ شاگرد جو اعلیٰ کا ہن کو جانتا تھا واپس آیا اور اس لڑ کی سے بات کی جو دربان تھی اور وہ پطرس کو اندر لائی ۔ 17 دروازہ پر کھڑی لڑکی نے پطرس سے کہا کیا تم بھی اسکے شاگردوں میں سے ایک ہو ؟” پطرس نے کہا ، “نہیں میں نہیں ہوں ۔” 18 سردی کی وجہ سے خادم اور پیا دے آگ دہکا رہے تھے اور اسکے ارد گرد کھڑے لوگ آگ تاپ رہے تھے اور پطرس بھی انہی کے ساتھ کھڑا ہو کر آگ تاپ رہا تھا ۔ 19 اعلیٰ کاہن نے یسوع سے اس کے شاگردوں کی اور تعلیم کی بابت پوچھا ۔ 20 یسوع نے جواب دیا ، “میں نے ہمیشہ علانیہ طور پر لوگوں سے کہا اور میں نے ہیکل میں اور یہودی عبادت گاہ کے اندر بھی کہا ۔جہاں تمام یہودی جمع تھے ۔ میں نے کبھی کوئی بات خفیہ نہیں کی ۔ 21 پھر تم مجھ سے کیوں پوچھتے ہو ؟ ، “ان سے پو چھو جنہوں نے میری تعلیمات کو سنا جو کچھ میں نے کہا وہ جانتے ہیں ؟ 22 جب یسوع نے ایسا کہا تو پیادوں میں ایک جو وہاں کھڑا تھا یسوع کے چہرے پر مارا اور کہا تو اعلٰی کا ہن کو اسطرح جواب دیتا ہے ؟” 23 یسوع نے کہا ،”اگر میں نے غلط کہا تو جو کو ئی یہاں ہے وہ کہے کہ کیا غلط ہے اگر میں نے سچ کہا ہے تو پھر مجھے مارتے کیوں ہو ۔” 24 پھر حنّا نے یسوع کو کائفا اعلیٰ کاہن کے پاس بھیج دیا یسوع اس وقت بندھے ہوئے تھے ۔ 25 شمعون پطرس آ گ کے قریب کھڑا آ گ تاپ رہا تھا دوسرے آدمی نے پطرس سے کہا ، “کیا تم اس آدمی کے شاگردوں میں سے ایک ہو ؟”لیکن پطرس نے کہا ،”نہیں میں نہیں ہوں ۔ 26 اعلیٰ کاہن کے خادموں میں سے ایک نے جو اسکا رشتہ دار تھا جس کا کا ن پطرس نے کا ٹا تھا کہا ، “کیا میں نے تجھے اس کے ساتھ باغ میں نہیں دیکھا تھا ۔” 27 لیکن پطرس نے دوبارہ کہا ، “نہیں میں اسکے ساتھ نہیں تھا ، “اور اسی وقت مرغ نے بانگ دی ۔” 28 اس کے بعد یہودیوں نے یسوع کو کائفا کے مکان سے رومی گورنر کے محل کو لے گئے یہ صبح کا وقت تھا ۔ یہودی گور نر کے محل کے اندر نہیں گئے وہ اپنے آپ کو نا پاک نہ کر نا چاہتے تھے ۔ کیوں کہ وہ فسح کا کھا نا کھانا چاہتے تھے ۔ 29 تب پیلا طس نے باہر آکر ان سے کہا ، “تم لوگ اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ ، “اس نے کیا برائی کی ہے ؟” 30 یہودیوں نے جواب دیا ، “یہ بڑا خراب آدمی ہے اسلئے ہم اسے تمہارے پاس لا ئے ہیں ۔” 31 پیلاطس نے یہودیوں سے کہا ، “تم اسے لے جاؤ اور اپنی شریعت کے مطا بق اسکا فیصلہ کرو ؟”یہودیوں نے جواب دیا ، “لیکن تمہارا قانون ہمیں کسی کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا ۔” 32 یہ اس لئے ہوا تا کہ یسوع کی بات پو ری ہو جو اس نے موت کے متعلق کہی تھی ۔ 33 پیلاطس واپس گور نر کے محل میں گیا اور یسوع کو بلا کر پو چھا ،”کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے ؟” 34 یسوع نے کہا ،”کیا یہ سوال تمہارا ہے ؟” یا پھر دوسروں نے میرے بارے میں تجھ سے کہا ؟” 35 پیلاطس نے کہا ، “میں یہودی نہیں ہوں! یہ تو تمہارے لوگ اور ان کے سردار کا ہن تھے جنہوں نے تمہیں میرے پاس لے آیا ۔ تم نے کیا برائی کی ہے ؟” 36 یسوع نے کہا ،”میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں اگر میری بادشاہت اس دنیا کی ہو تی تب میر ے خادم یہودیوں کے خلاف لڑے ہو تے تا کہ مجھے یہودیوں کے حوالے نہیں کیا جاتا ۔ لیکن میری بادشاہت کسی اور جگہ کی ہے ۔” 37 پیلاطس نے کہا ،”تو پھر تم بادشاہ ہو!” یسوع نے کہا، ”تمہارا خود کا کہنا ہے کہ میں بادشاہ ہوں ، “یہ سچ ہے میں اسی لئے پیدا ہوا تھا اور اسی لئے دنیا میں آیا تاکہ سچائی کی گواہی دوں اور ہر وہ شخص جو سچ سے تعلق رکھتا ہے وہ میری آواز سنے۔، “ 38 پیلاطس نے کہا، ”سچائی کیا ہے؟ ، “اور اتنا کہہ کر وہ باہر یہودیوں کے پاس دوبارہ گیا اور ان سے کہا ، “میں اس کا کچھ جرم نہیں پا تا ہوں ۔ 39 مگر تمہارے رواج کے مطا بق فسح پر میں ایک قیدی کو رہا کرتا ہوں کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے لئے اس یہودیوں کے بادشاہ کو چھو ڑ دوں؟” 40 یہودی چّلا اٹھے اور کہا ، “نہیں! اس کو نہیں برّبا کو چھو ڑ دو” ( برّبا ایک ڈاکو تھا ) 1 تب پیلاطس نے حکم دیا کہ یسوع کو لے جاکر کوڑے لگا ئے جا ئیں ۔ 2 سپاہیوں نے کانٹوں کا تاج بنایا اور اسکے سر پر پہنایا اور اس کو ارغوانی رنگ کے کپڑے پہنا ئے ۔ 3 اور اسکے قریب یکے بعد دیگر آکر اسکے چہرے پر طمانچے مارتے ہوئے کہتے ، “اے یہودیوں کے بادشاہ! آداب ۔” 4 پیلاطس دوبارہ باہر آکر یہودیوں سے کہا !” دیکھو میں یسوع کو تمہارے پاس باہر لا رہا ہوں میں تمہیں بتا نا چاہتا ہوں کہ میں نے ایسی کو ئی چیز نہیں پائی جسکی بناء پر اسے مجرم قرار دوں ۔” 5 تب یسوع باہر آئے اس وقت وہ کانٹوں کا تاج پہنے ہوئے تھے اور ارغوانی لباس بدن پر تھا پیلاطس نے یہودیوں سے کہا ، “یہ رہا وہ آدمی ۔” 6 سردار کاہن اور یہودی سپاہیوں نے یسوع کو دیکھا تو پکار اٹھے ، “اس کو صلیب پر چڑھا دو ! صلیب پر چڑھا دو !” لیکن پیلاطس نے کہا ،”تم ہی اس کو لے جاؤ اور صلیب پر چڑھا دو کیوں کہ میں اس کا کچھ بھی جرم نہیں پا تا ہوں ۔” 7 یہودیوں نے کہا ،”ہم اہل شریعت ہیں اور اس شریعت کے مطا بق اسکو مر نا چاہئے کیوں کہ اس نے کہا وہ خدا کا بیٹا ہے ۔” 8 جب پیلاطس نے یہ سنا تو وہ مزید ڈر گیا اور ۔ 9 پیلاطس گور نر کے محل کے اندر واپس چلا گیا اور یسوع سے پو چھا ،”تو کہاں کا ہے ؟ ، “لیکن یسوع نے کو ئی جواب نہیں دیا ۔ 10 پیلاطس نے کہا ، “تم مجھ سے کچھ کہنے سے انکار کر تے ہو ۔ یاد رکھو میں وہ اختیار رکھتا ہوں کہ تم کو چھوڑ دوں یا صلیب پر چڑھا کر ماردوں ۔” 11 یسوع نے کہا ،”اگر خدا تمہیں یہ اختیار نہ دیتا تب تمہارا مجھ پر کچھ اختیار نہ ہو تا جسے خدا نے تمہیں دیا ہے ۔ اس لئے جس نے مجھے تیرے حوالے کیا اس کا گناہ زیادہ ہے بنسبت تیرے ۔” 12 اسکے بعد پیلاطس نے کوشش کی کہ اسے چھوڑ دے مگر یہودیوں نے چلا کر کہا ، “جو آدمی اپنے آپکو بادشاہ کہے وہ قیصر کا مخالف ہے اگر تو اسے چھوڑے گا تو قیصر کا خیر خواہ نہیں ہے ۔” 13 پیلاطس سے یہودیوں نے جو کہا وہ سنا اور یسوع کو باہر اس جگہ پر لے آیا اور فیصلہ کر نے کی نشست پر بیٹھا ، “اس جگہ کو سنگ چبوترہ” (ارامی زبان میں گبّتھّا) کہتے ہیں ۔ 14 یہ وقت دو پہر کا تھا تقریباً چھٹا گھنٹہ تھا فسح کی تیاری کا دن تھا۔ پیلاطس نے یہودیوں سے کہا ، “تمہارا بادشاہ یہاں ہے ۔” 15 یہودی چیخ رہے تھے” لے جاؤ اسے ,لے جاؤ اسے ,اور صلیب پر چڑھا دو! ، “پیلاطس نے یہودیوں سے پو چھا ،”تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے بادشاہ کو صلیب پر چڑھا دوں ؟” تب سردار کاہنوں نے کہا ،”ہمارا بادشاہ صرف قیصر ہے!، “ 16 اس کے بعد پیلا طس نے یسوع کو انکے حوالے کیا کہ مصلوب کیا جائے ۔ 17 یسوع نے خود اپنی صلیب اٹھا ئی اور اس جگہ” جو کھو پڑی کی جگہ کہلاتی تھی ، “گئے ۔ (عبرانی زبان میں اس جگہ کو”گولگتّا ، “کہا جاتا ہے ) 18 گولگتّا کے مقام پر انہوں نے یسوع کو اور ساتھ دو اور آدمیوں کو صلیب پر چڑھا دیا ۔ دو آدمی یسوع کے دو طرف تھے اور یسوع ان دونوں کے درمیان میں تھے ۔ 19 پیلاطس نے ایک تختی نشان کے طور پر لکھی اور صلیب پر لگا دی جس پر لکھا تھا ” یسوع ناصری یہودیوں کا بادشاہ، “۔ 20 تختی ارامی ,لاطینی ,اور یونانی زبانوں میں لکھی ہوئی تھی ۔ جس کو بہت سے یہودیوں نے پڑھا کیوں کہ یہ جگہ جہاں انہوں نے یسوع کو مصلوب کیا وہ جگہ شہر کے قریب تھی۔ 21 سردار یہودی کاہنوں نے پیلاطس سے کہا ،”اس کو یہودیوں کا بادشاہ نہ لکھو بلکہ ایسا لکھو اس شخص نے کہا تھا میں یہودیوں کا بادشاہ ہوں ۔” 22 پیلاطس نے کہا ، “جو کچھ میں نے لکھا ہے اس کو تبدیل کر نا نہیں چاہتا۔ 23 جب سپاہیوں نے یسوع کو مصلوب کیا تو ان لوگوں نے انکے کپڑے لے لئے ان لوگوں نے کپڑوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہر سپا ہی نے ایک ایک حصہ لیا ان لوگوں نے انکا کر تا بھی لے لیا یہ بغیر سلا ہوا اوپر سے نیچے تک بنا ہوا تھا۔ 24 سپاہیوں نے کہا اس کو نہ پھا ڑو بلکہ اس کے لئے قرعہ ڈالیں تا کہ معلوم ہو کہ یہ کس کے حصہ میں آیا ہے۔ یہ اس لئے ہوا تا کہ صحیفے میں جو لکھا ہوا ہے وہ پو را ہو سکے۔ جو اسطرح سے ہے: 25 یسوع کی ماں صلیب کے پاس کھڑی تھی اور اسکی ماں کی بہن کلوپاس کی بیوی مریم اور مریم مگدلینی کے ساتھ کھڑی تھی۔ 26 یسوع نے اپنی ماں اور شاگرد جس کو وہ عزیز رکھتے تھے دیکھے اور اپنی ماں سے کہا، ”اے عورت تیرا بیٹا یہاں ہے ”اور یسوع نے شاگرد سے کہا، 27 یہاں ، “تمہاری ماں ہے، “اسکے بعد سے شاگرد نے یسوع کی ماں کو اپنے ہی گھر میں رہنے دیا ۔ 28 اس کے بعد یسوع نے جا ن لیا کہ سب کچھ ہو چکا اور صحیفہ کا لکھا ہوا پو را ہوا تو اس نے کہا، ”میں پیا سا ہوں۔، “ 29 وہا ں پر سر کہ سے بھرا ایک مر تبان تھا چنانچہ سپا ہیوں نے اسپنج کو سرکہ میں بھگو کر اسے زوفے کی شا خ پر رکھ کر اس کو دیا ۔ یسوع نے اسے منھ سے لگا یا۔ 30 جب سر کہ یسوع نے پیا تو کہا ، “سب کچھ تمام ہوا ، “اور گردن ایک طرف جھکا دی اور اپنی جان دیدی۔ 31 یہ دن تیا ری کا دن تھا ۔ اور دوسرے دن خاص سبت کا دن تھا یہودی نہیں چا ہتے تھے کہ سبت کے دن اس کا جسم صلیب پر ہی رہے اس لئے انہوں نے پیلا طس سے کہا کہ اس کی ٹانگیں توڑ دی جا ئیں اورلاشیں اتا ری جا ئیں۔ 32 چنانچہ سپا ہیوں نے آ کر پہلا آدمی جو مصلوب ہوا تھا اس کی ٹانگیں توڑ دیں اور دوسرے آدمی کی بھی ٹانگیں توڑ دیں جو یسوع کے ساتھ تھا۔ 33 لیکن جب سپا ہی نے یسوع کے قریب آکر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو انہوں نے اس کی ٹانگیں نہیں تو ڑی ۔ 34 لیکن ایک سپا ہی نے اپنے بھا لے سے اس کے بازو کو چھید ڈالا اور اس سے ایک دم خون اور پانی نکلا ۔ 35 جس نے یہ دیکھا اس نے گواہی دی اور وہ گواہی سچی ہے وہ سچ کہتا ہے تا کہ تم بھی ا یمان لاؤ ۔ 36 یہ تمام واقعات صحیفے کے پورے ہونے کے لئے ہوئے ، “اس کی کوئی ہڈی نہ تو ڑی جا ئے گی ۔” 37 لیکن ایک دوسرے صحیفے کے مطا بق لوگ، “اس کو دیکھیں گے جس نے بر چھی ما را۔” 38 ان واقعات کے بعد ایک شخص یوسف نامی جو آرمینہ کا رہنے والا تھا اور یسوع کا شاگرد تھا پیلا طس سے یسوع کی لاش لے جا نے کی اجازت چا ہی ۔یوسف یسوع کا خفیہ شا گرد تھا ۔ کیوں کہ وہ یہودیوں سے ڈرتا تھا پیلا طس نے اجا زت دے دی۔ تب یوسف آکر یسو ع کی لاش لے گیا ۔ 39 نیکو دیمس بھی آیا۔ نیکو دیمس وہ شخص تھا جو یسوع سے ملنے رات کو آیا تھا نیکو دیمس تقریباً ایک سو پا ؤنڈ مصا لحے لے آیا جو مرّ اور عود سے ملے ہو ئے تھے۔ 40 ان دونوں نے یسوع کی لا ش کو لے لیا اور لاش کو سوتی کپڑے میں خوشبو کے ساتھ کفنایا جیسا کہ یہودیوں کے یہاں دفن کا طریقہ ہے۔ 41 جس سجگہ یسوع کو صلیب ہر چڑھایا گیا وہا ں ایک باغ تھا اس باغ میں ایک نئی قبر تھی جس میں اب تک کسی کو نہیں دفن کیا گیاتھا۔ 42 ان آدمیوں نے یسوع کو اس قبر میں رکھا کیوں کہ وہ قریب تھی اور یہودیوں نے اپنے سبت کے دن کی تیاری شروع کر دی ۔ 1 ہفتہ کا پہلا دن مریم مگد لینی قبر پر آئی ابھی تا ریکی تھی دیکھا کہ قبر کا پتھر ہٹا ہوا ہے ۔ 2 وہ دوڑ کر شمعون پطرس اور دوسرے شاگردوں کے پاس گئی ۔(جو یسوع سے محبت کرتے تھے ) مریم نے کہا ، “انہوں نے خدا وند کو قبر سے نکا ل لیا ہے پتہ نہیں انہیں کہاں رکھا گیا ہے ۔” 3 پھر پطرس اور شاگرد قبر کی طرف گئے ۔ 4 وہ دونوں دوڑ رہے تھے لیکن شاگرد پطرس سے زیادہ تیز دوڑا اور سب سے پہلے قبر پر پہونچا ۔ 5 شاگرد نے قبر میں دیکھا کہ سوتی کپڑے کے ٹکڑے پڑے ہو ئے تھے لیکن وہ اندر نہیں گیا ۔ 6 شمعون پطرس ان کے پیچھے ہی پہونچا اس نے قبر میں جا کر دیکھا کہ سوتی کپڑے کے ٹکڑے پڑے تھے ۔ 7 اس نے یہ بھی دیکھا جو رومال یسوع کے سر پر لپیٹا تھا اس کو لپیٹ کر ان ٹکڑوں سے علٰیحدہ کچھ دور پڑا تھا۔ 8 تب دوسرا شاگرد اندر آیا یہ وہ شاگرد تھا جو قبر پر پہلے پہونچا تھا جو کچھ اس نے دیکھا اور یقین کیا ۔ 9 کیوں کہ وہ اب تک صحیفوں کو نہ جانتے تھے جس کے مطا بق مسیح کو مردوں میں سے زندہ ہو ناتھا۔ 10 پس وہ شاگرد واپس گھر چلے گئے۔ 11 لیکن مریم قبر کے با ہر کھڑی رو تی رہی اور روتیے ہوئے اس نے قبر میں جھانک کر دیکھا۔ 12 مریم نے دیکھا دو فرشتے جو سفید لباس میں ملبوس وہاں بیٹھے تھے جہاں یسوع کی لا ش کو رکھا گیا تھا ایک فرشتہ یسوع کے سرہا نے بیٹھا تھا اور دوسرا فرشتہ یسوع کے پاؤں کی طرف بیٹھا تھا ۔ 13 فرشتوں نے مریم سے پوچھا ،”اے عورت تم کیوں رورہی ہو ؟”مریم نے جواب دیا ، “کچھ لوگ میرے خداوند کی لاش لے گئے ہیں میں نہیں جانتی ان لوگوں نے اسے کہاں رکھا ہے ۔” 14 جب مریم نے یہ کہہ کر رخ پھیرا تو دیکھا کہ یسوع کھڑا ہے لیکن وہ نہیں سمجھی کہ وہ یسوع ہے۔ 15 یسوع نے اس سے پو چھا ، “اے عورت ! تو کیوں رو رہی ہے اور کس کو ڈھونڈ رہی ہے؟ 16 یسوع نے اس سے کہا ،”اے مریم !” اور مریم نے یسوع کی جانب مڑکر عبرانی زبان میں کہا ، “ربوّنی، “(جسکے معنٰی استاد کے ہیں ) 17 یسوع نے اس کو کہا ،”مجھے مت چھو نا کیوں کہ میں ابھی تک اپنے باپ کے پاس اوپر نہیں گیا” لیکن میرے بھائیوں (شاگردوں ) کے پاس جا کر کہو کہ میں اپنے اور تمہارے باپ کے پاس اوپر جا رہا ہوں ۔” میں اوپر اپنے اور تمہا رے خدا کے پاس جا رہا ہوں۔” 18 مریم مگدلینی نے آکر شاگردوں سے کہا ، “میں نے خدا وند کو دیکھا اور اس نے مجھ سے یہ باتیں کہیں ۔” 19 ہفتہ کا پہلا دن تھا اسی دن شام میں سب شاگرد جمع تھے ۔ دروازوں کو یہودیوں کے ڈر سے بند رکھا تھا ۔ تب یسوع آکر ان کے درمیان کھڑا ہوا ۔ 20 اور کہا تم پر سلامتی ہو ، “یہ کہہ کر اس نے شاگردوں کو اپنا ہاتھ اور بازو دکھا یا پس شاگردوں نے حداوند کو دیکھا اور بہت خوش ہو ئے ۔ 21 یسوع نے دوبارہ کہا ،”تم پر سلامتی ہو باپ نے مجھے یہاں بھیجا ہے اسی طرح اب میں تم سب کو بھیجتا ہوں ۔” 22 یسوع نے ان پر پھو نکا اور کہا روح مقدس لو ۔ 23 جن لوگوں کا گناہ تم معاف کرو انکا گناہ معاف اور جنہیں معاف نہ کرو ان کا گناہ معاف نہ ہو گا ۔” 24 تھو ما جسے توام بھی کہتے ہیں ۔ یسوع کے آنے کے وقت دوسرے شاگردوں کے ساتھ نہ تھا ۔ تھو ما ان بارہ شاگردوں میں سے ایک تھا ۔ 25 دوسرے شاگردوں نے تھو ما سے کہا ، “ہم نے خدا وند کو دیکھا” تب تھو ما نے کہا ، “میں جب تک اسکے ہا تھوں میں کیلوں کے نشان نہ دیکھوں اور ان سورا خو ں میں اپنے ہا تھ نہ ڈالوں اور جب تک میں اپنا ہاتھ اسکے بازو پر نہ رکھوں میں یقین نہیں کر تا ۔” 26 ایک ہفتہ بعد دوبارہ شاگرد گھر میں جمع تھے اور تھو ما بھی انکے ساتھ تھا اس وقت دروازہ بند تھا ۔ یسوع وہاں آکر انکے درمیان کھڑے ہو گئے یسوع نے کہا ، “سلامتی ہو تم پر۔” 27 تب یسوع نے تھو ما سے کہا ، “اپنی انگلی یہاں رکھو اور اپنے ہاتھ میرے بازو میں رکھو اور مزید شک میں نہ پڑو اور اعتقاد رکھو”۔ 28 تھو ما نے یسوع سے کہا ، “اے میرے خدا وند اے میرے خدا ۔” 29 یسوع نے اس سے کہا تم نے مجھے دیکھا اور ایمان لا ئے لیکن جن لوگوں نے مجھے بغیر دیکھے ایمان لا ئے وہ قابل مبارک باد ہیں ۔” 30 یسوع نے اور کئی معجزے دکھا ئے جو اسکے شاگردوں نے دیکھا وہ تمام معجزے اس کتاب میں نہیں لکھے گئے ۔ 31 لیکن یہ اس لئے لکھے گئے کہ تم ایمان لا ؤ کہ یسوع ہی مسیح ہے جو خدا کا بیٹا ہے تا کہ اس طرح ایمان لاکر تم اسکے نام سے زندگی پا ؤ ۔ 1 اس کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو تبر یاس کی جھیل کے پاس اپنے شاگردوں پر ظا ہر کیا وہ اس طرح کیا ۔ 2 چند شاگرد وہا ں جمع تھے جن میں شمعون پطرس، تو ما ،نتن ایل،جو قانا گلیل کا تھا اور زبدی کے دو بیٹے اور دوسرے دو شاگردتھے ۔ 3 شمعون پطرس نے کہا ،”میں مچھلی کے شکا ر پر جا رہا ہوں” دوسروں نے کہا ، “ہم بھی تمہا رے ساتھ چلیں گے پھر سب ملکر کشتی پر سوار ہوئے ۔ اس رات انہوں نے کچھ بھی شکار نہ کیا ۔ 4 صبح یسوع کنا رے پر آکر کھڑے ہو گئے مگر شاگردوں نے پہچا نا نہیں کہ یہ یسوع ہے ۔ 5 تب یسوع نے شاگردوں سے کہا ، “دوستو کیا تم نے مچھلی کا شکا ر کیا؟” شاگردوں نے جواب دیا ، “نہیں” 6 یسوع نے کہا ، “اپنے جال کشتی کے دائیں جانب پھینکو اس طرف تمہیں مچھلیاں ملیں گی” چنانچہ شاگردوں نے ویسا ہی کیا پھر شاگردوں نے جال میں اتنی مچھلیا ں پائیں کہ اس جال کو کھینچ نہ سکے ۔ 7 تب اس شاگرد نے جو یسوع کو عزیز تھا پطرس سے کہا ، “یہ تو خداوند ہے اور پطرس نے اس سے یہ کہتے ہو ئے سن کر کہ ، “وہ آدمی خدا وند ہے” اپنا کرتا کمر سے باندھ کر (پطرس کام کر نے کے لئے اپنے کپڑے اتار چکے تھے ) پانی میں کود پڑا 8 دوسرے شاگرد کشتی میں سوار مچھلیوں کا جال کھینچتے ہو ئے آئے کیوں کہ وہ کنارے سے زیادہ دور نہ تھے صرف لگ بھگ سو گز کی دوری پر تھے ۔ 9 جب شاگرد کشتی سے باہر آئے تو انہوں نے کوئلوں کی آ گ دیکھی جس پر مچھلی اور روٹی رکھی ہو ئی تھی ۔ 10 تب یسوع نے کہا ،”کچھ مچھلیاں جو تم ابھی پکڑے ہو لے آؤ ۔” 11 شمعون پطرس کشتی میں جاکر مچھلیوں کے جال کو کنارے پر لے آیا جو بہت سی بڑی مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا جس میں تقریباً ۱۵۳ مچھلیاں تھیں اس کے با وجود وہ نہ پھٹا ۔ 12 یسوع نے ان سے کہا ، “آؤ کھا نا کھا ؤ لیکن کو ئی بھی شاگرد نہ پو چھ سکا کہ وہ کون ہے ؟” وہ جان گئے کہ وہ خداوند ہے ۔ 13 یسوع نے آکر انہیں روٹی اور مچھلی دی ۔ 14 یہ تیسرا موقع تھا جب یسوع مر کر جی اٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں کے سامنے ظا ہر ہوا ۔ 15 جب وہ کھا نا کھا چکے تو یسوع نے شمعون پطرس سے کہا ، “اے یو حناّ کے بیٹے شمعون ! کیا تو ان لوگوں سے زیا دہ مجھ سے محبت کر تا ہے ؟”پطرس نے جواب دیا ، “ہاں! اے خداوند تم جانتے ہو کہ آپ مجھے کتنے عزیز ہیں ۔” تب یسوع نے پطرس سے کہا ، “میرے میمنوں کی دیکھ بھال کر ۔” 16 دوبارہ یسوع نے پطرس سے کہا ، “اے یو حناّ کے بیٹے شمعون ! کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو ؟” پطرس نے جواب دیا ہاں اے خدا وند تم جانتے کہ میں تمہیں عزیز رکھتا ہوں ۔” تب یسوع نے پھر پطرس سے کہا ، “میرے بھیڑوں کی نگہبا نی کر۔” 17 تیسری مرتبہ یسوع نے پطرس سے پوچھا ، “اے یوحناّ کے بیٹے شمعون ! کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو ؟ ، “پطرس بہت رنجیدہ ہوا کیو ں کہ یسوع نے تین بار یہ پوچھا ، “کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو ؟ ، “پطرس نے کہا ،”اے خدا وندتم ہر بات جانتے ہو تم یہ بھی جاتے ہو کہ میں تمہیں عزیزرکھتا ہو ں۔ یسوع نے پطرس سے کہا ، “تو میری بھیڑوں کی نگہبانی کر ۔” 18 میں تم سے سچ کہتا ہو ں جب تم جوان تھے اپنی کمر کس کر جہاں چاہتے جاتے تھے مگر جب تو بوڑھا ہو گا تو دوسرا آدمی تیری کمر کسے گا اور جہا ں تو نہ جا سکے گا وہا ں لے جائے گا ۔” 19 یسوع نے ان باتو ں کے ذریعہ بتایا کہ پطرس کی کس قسم کی موت سے خدا کا جلا ل ظاہر ہوگا ، “اتنا کہہ کر اس نے کہا ،”میرے پیچھے آ”۔ 20 پطرس نے پلٹ کر اس شاگرد کو پیچھے آتا ہوا دیکھا جس کو یسوع عزیز رکھتے تھے اور اس نے شام کے کھانے کے وقت اس کے سینہ پر سر رکھ کر پوچھا تھا!” خداوند آپ کا مخا لف کون ہوگا ؟” 21 جب پطرس نے دیکھا کہ وہ شاگرد پیچھے ہے تب یسوع سے پوچھا ، “خداوند اس کا کیا حال ہوگا ؟” 22 یسوع نے جواب دیا ، “ہو سکتا ہے میں آنے تک اسے رہنے دو ں لیکن تجھے اس سے کیا تو میرے پیچھے آ ۔” 23 پس دوسرے بھا ئیوں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ یہ شاگرد جسے یسوع عزیز رکھتا ہے نہیں مریگا ۔ لیکن یسوع نے ایسا نہیں کہا کہ وہ نہیں مریگا اس نے صرف یہی کہا ، “ہو سکتا ہے میرے آنے تک اسے رہنے دوں لیکن تجھے اس سے کیا ۔ ” 24 یہ وہی شاگرد ہے جو ان باتوں کو کہتا ہے اور جس نے اسکو لکھا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اسکا کہنا سّچا ہے۔ 25 اور کئی کام ہیں جو یسوع نے کئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر بات کو لکھا جائے تو ساری دنیا بھی ان ساری کتابوں کے لئے جسے لکھی جا ئے نا کا فی ہو گی۔
|